کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 440
حضرت میاں صاحب، محسن الملک، علامہ شبلی، مولانا ذکاء اللہ، ڈپٹی نذیر احمد اور دوسرے اکابرِ وطن آرہ میں تشریف لائے۔‘‘[1] آرہ ہی میں سب سے پہلے مولانا ابراہیم آروی نے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی جو اپنی نوعیت کا سب سے پہلا اور جدید ترین مدرسہ تھا۔ یہیں پہلے پہل جماعت اہلِ حدیث کی تنظیم سازی کی طرف توجہ منعطف کی گئی اور ۱۹۰۶ء میں ’’مذاکرہ علمیہ‘‘ کے جلسے میں ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے متعدد تلامذۂ کرام نے آرہ کو اپنی جہد و سعی کا مرکز بنایا۔ اسی شہر آرہ میں استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ غازی پوری، قاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری، مولانا سعادت حسین بہاری، مولانا فضل الکریم بردوانی، شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا وصیت علی نگینوی، علامہ عبد الرحمن مبارک پوری وغیرہم جیسے کبار علماء نے تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کا دورِ عروج کسی نہ کسی شکل میں ۱۹۱۸ء تک قائم رہا۔ اس کے بعد آرہ کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ تاہم بعد کے ادوار میں بھی مولانا عبد الوہاب آروی (م ۱۹۸۳ء) جیسی عظیم المرتبت شخصیت یہاں گزری ہے۔ مولانا موصوف ۱۹۴۴ء سے لے کر ۱۹۷۲ء تک ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ (مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ہند) کے صدر رہے۔ ۱۹۷۲ء میں ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کے صدر منتخب ہوئے۔ مولانا واحد اہلِ حدیث عالم ہیں جو ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کے صدر منتخب ہوئے۔ آرہ جو کبھی تاریخِ اہلِ حدیث کا مرکزی مقام تھا، افسوس اس کا عروج مبدل بہ زوال ہو گیا، تاہم تاریخِ اہلِ حدیث میں اسے جو مقام حاصل ہے، وہ نا قابلِ فراموش ہے۔ اس کی علمی، دینی، تدریسی، معاشرتی، سماجی اور تاریخی حیثیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ بر صغیر کی تاریخِ اہلِ حدیث میں ’’آرہ‘‘ ایک سنگِ میل ہے جسے فراموش کر کے بر صغیر کی تاریخِ اہلِ حدیث کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ 
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء