کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 425
ڈیانوی کے فرزند اور علامہ شمس الحق ڈیانوی کے ماموں مولانا محمد احسن کی وفات پر مولانا نے جو عربی مرثیہ لکھا، اس سے ان کی ادبی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔
تدریس:
مولانا بڑے عدیم الفرصت تھے، تاہم تدریس سے بھی انھیں خاص شغل رہا۔ حکیم ابراہیم لکھنوی نے مولانا سے حدیث کی تحصیل کی جس کا ذکر گذشتہ سطور میں کیا جا چکا ہے۔ بھوپال کے زمانۂ قیام میں استادِ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی نے ان سے کسبِ علم کیا تھا۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی نے لکھا ہے کہ حافظ صاحب وزیر آبادی نے ان سے کتبِ ادب پڑھی تھیں ۔[1] لیکن مولانا عبد المجید خادمؔ سوہدروی نے لکھا ہے:
’’مولانا حکیم محمد احسن بھوپالوی، آپ حدیث کے بہترین استاد تھے۔ آپ کا اندازِ تدریس خوب تھا۔ طلبہ کو مطمئن کر دیتے تھے۔ حافظ صاحب نے آپ سے جامع ترمذی، سنن ابی دادو، سنن نسائی اور سنن دارمی پڑھیں ۔‘‘[2]
ممکن ہے حافظ صاحب نے ان سے حدیث اور ادب دونوں ہی علوم کی تحصیل کی ہو۔ واللّٰه أعلم
۱۳۱۴ھ میں مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی نے ڈیانواں میں مولانا حکیم محمد احسن عظیم آبادی سے کامل تین برس تک تمام متداولہ طبی کتابیں اور ’’مقاماتِ حریری‘‘ پڑھیں ۔
قلمی خدمات:
مولانا کی دو کتابوں تک ہماری رسائی ہو سکی۔ایک ’’العلق الثمین في إثبات الجہر بآمین‘‘ اور دوسری ’’القول المنصور و العمل المأثور في وضع الیمنیٰ علیٰ الیسریٰ في الصلاۃ علی الصدور‘‘ ہے۔ پہلی کتاب آمین بالجہر کے اثبات اور دوسری نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق ہے۔ یہ دونوں کتابیں ایک ساتھ مطبع محمدی لاہور سے ۱۲۹۳ھ میں طبع ہوئیں ۔ صفحات کی مجموعی تعداد ۲۸ ہے۔
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۴ دسمبر ۱۹۱۹ء
[2] استادِ پنجاب (ص: ۱۲۰)