کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 422
’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب کی سفارش کی، لیکن جب فہرست شائع ہوئی تو مولانا کا نام خان صاحبان کی فہرست میں درج تھا۔ مولانا بڑے ناراض ہوئے اور اپنی خفگی کا اظہار پرنسپل صاحب سے کیا۔ پرنسپل صاحب نے دوبارہ مولانا کے لیے شمس العلماء کے خطاب کی سفارش کی، چنانچہ دوسرے سال ۱۹۰۳ء میں مولانا کو ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔
اعترافِ فضیلت:
مولانا حکیم عبد الحی حسنی نے ’’نزہۃ الخواطر‘‘میں مولانا سعادت حسین کے تذکرے میں لکھا ہے:
’’اجتعمت بہ في کلکتہ فوجدتہ شیخا مشکلا، منور الشبیہ، حسن الخلاق، کثیر التواضع، قلیل الخلاف علی أصحابہ‘‘[1]
’’میں نے ان سے کلکتہ میں ملاقات کی۔ میں نے انھیں ایک شیخ کی صورت میں پایا۔ ان کا چہرہ روشن اور اخلاق عمدہ تھے۔ بہت تواضع کرنے والے تھے۔ اپنے دوستوں کی کم ہی مخالفت کرتے تھے۔‘‘
تصانیف:
مولانا سعادت حسین ماہرِ منقولات و معقولات تھے۔ فنِ معقولات پر مولانا کی کئی تصانیف ہیں جنھیں علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ مولانا کے بیشتر علمی ذخیرے سے تو ہمیں آگاہی نہ ہو سکی، تاہم جن کتابوں سے آگہی ہوئی، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1 ’’شرح ھدایۃ الحکمۃ‘‘: مولانا نے ’’ھدایۃ الحکمۃ‘‘ کی شرح لکھی، جسے اپنے دور میں بڑی مقبولیت ملی۔ مولانا کی یہ شرح مطبع محمدیہ لکھنؤ سے ۱۳۰۷ھ میں طبع ہوئی۔
2 ’’رسالہ ابطالِ تناسخ‘‘: مولانا نے یہ کتاب ہندوؤں کے نظریۂ تناسخ کے ابطال پر لکھی تھی، جسے اس دور میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
3 ’’حاشیہ میر زاہد‘‘: مولانا نے رسالہ میر زاہد پر حواشی لکھے تھے، جو فنِ معقولات کا مشہور درسی رسالہ ہے۔
[1] نزہۃ الخواطر (۱۲۳۳)