کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 420
’’مولوی سعادت حسین صاحب جو مولوی سعادت علی مرحوم کے روبرو مدرس مدرسہ کے مقرر ہوئے تھے اور کتبِ درسیہ معقول و منقول آسانی سے پڑھا سکتے تھے باقتضائے آب و دانہ تشریف لے گئے۔ سبب یہ ہوا کہ وہ رہنے والے صوبہ بہار کے تھے اور چند ماہ سے ان کو وطن جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ رمضان شریف کی تعطیل میں جو وطن تشریف لے گئے تو ان کی والدہ صاحبہ نے یہاں آنے کی اجازت بُعد مسافت کی جہت سے نہ دی۔ بدیں وجہ بعض طلبہ بھی متفرق ہو گئے۔‘‘[1]
اس طرح مولانا کا تدریسی رشتہ مدرسہ مظاہر علوم سے زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔
آرہ میں قیام:
مولانا آرہ تشریف لے آئے اور یہاں سلسلۂ تدریس جاری کیا۔ اسی اثنا میں ۱۲۹۶ھ میں فریضۂ حج بیت اللہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ۱۲۹۷ھ میں جب مولانا احمد علی سہارن پوری آرہ تشریف لائے تو ان سے سندِ حدیث حاصل کی۔ آرہ میں مجموعی طور پر ۱۳ برس فرائضِ تدریس انجام دیے۔ آرہ کے جن مدارس میں مولانا نے فرائضِ تدریس انجام دیے، ان میں دو مدرسوں کا ذکر ہمیں مل سکا: 1 مدرسہ عربیہ، 2 مدرسہ عین العلوم۔
مدرسہ عالیہ کلکتہ:
۱۳۰۲ھ بمطابق ۱۸۸۶ء میں مولانا ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ سے منسلک ہوئے، جہاں ریٹائر ہونے تک تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
حلقۂدرس:
مولانا کا حلقۂ درس خاصا وسیع تھا۔ مولانا نے سہارن پور، آرہ اور کلکتہ میں فرائضِ تدریس انجام دیے۔ طلبا سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ مدرسے کے اوقات کے بعد بھی ان کے گھر کا دروازہ طلابِ علم کے لیے کھلا ہوتا تھا۔ طلبا اپنی الجھنیں لے کر بلا تکلف حاضر ہوتے اور مولانا ان طلاب کو اپنے فیضِ علم سے سیراب کرتے۔ تلامذہ میں حسبِ ذیل علمائے ذی اکرام کے نام ملتے ہیں :
[1] روداد ۱۲۸۶ھ:۱، بحوالہ علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (۱/۸۳)