کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 419
کے حضور میں استرشاد کے لیے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا کہ قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھا کرو اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص لگاؤ پیدا کرو۔ ترمذی اکثر مطالعہ میں رکھو۔ مولانا سعادت حسین صاحب نے عرض کی کہ حضور اعمال و اشغالِ صوفیہ میں سے کوئی چیز تلقین فرما دیں ! مولانا قدس سرہ نے فرمایا کہ ولایت پکی اور اصلی وہی ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو، اور سب میں شیطان کا دھوکا ہے۔ اس کے بعد بغیر اس کے کہ کوئی شغل تعلیم فرماتے رخصت کر دیا۔‘‘[1] ’’مدرسہ مظاہر علوم‘‘ سہارن پور: تکمیلِ علم کے بعد ابتداءً کچھ عرصہ آرہ کے ’’مدرسہ عربیہ‘‘ میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے، لیکن مولانا کی غیر معمولی تدریسی صلاحیت اور معقولات میں اشتغال کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی، لہٰذا ۱۲۸۴ھ میں ’’مدرسہ مظاہر علوم‘‘ سہارن پور کے منتظمین نے مولانا سے استدعا کی کہ وہ مدرسہ میں درس و افادہ کی مجلس آراستہ کریں ۔ محمد شاہد سہارن پوری لکھتے ہیں : ’’آرہ میں قیام کے دوران حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارن پوری سے ملاقات کی تو ان سے حدیث شریف کی اجازت لے کر ان کے تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ غالباً اسی تعلق اور نسبتِ تلمذ کی بنیاد پر آپ ۱۲۸۴ھ میں مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ تجویز کیے گئے۔‘‘[2] مگر یہ خیال درست نہیں ، کیونکہ مولانا احمد علی سہارن پوری سے مولانا سعادت حسین کا رشتۂ تلمذ ۱۲۹۷ھ میں قائم ہوا تھا، جیسا کہ مولانا محمد ادریس نگرامی نے ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ میں تصریح کی ہے۔[3] رمضان المبارک ۱۲۸۶ھ میں ’’مظاہر علوم‘‘ سے مختصر عرصے کے لیے رخصت لے کر بہار تشریف لے گئے۔ یہ روانگی تو مختصر مدت کے لیے تھی، مگر والدہ نے اپنی نگاہوں سے دور بھیجنا گوارا نہ کیا اور سہارن پور واپسی کی اجازت نہیں دی۔ مدرسہ مذکورکے روداد نویس لکھتے ہیں :
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۱۴۲) [2] علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات (۱/۸۲، ۸۳) [3] تذکرہ علمائے حال (ص: ۲۸)