کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 414
4 تفسیر آیت: {وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰهِ } [المائدۃ: ۳] 5 تفسیر آیت: {وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ } [البقرۃ: ۱۷۹][1] افسوس مولانا کی ان کتابوں کی کوئی تفصیل مل سکی اور نہ مولانا کی کوئی تحریر ہی کہیں نظر سے گزری۔ ازواج و اولاد: مولانا رفیع الدین نے دو نکاح کیے۔ پہلی اہلیہ سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔ مولانا کی دوسری اہلیہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ صاحبزادوں کے نام یہ ہیں : مولانا محمد ابراہیم، مولانا حافظ ضیاء الدین، محمد عبد اللہ، مولوی عبد المتین، محمد یحییٰ، عبد الظاہر اور عبد الباطن۔ اول الذکر دو صاحبزادوں نے شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ وفات: مولانا رفیع الدین محدث شکرانوی دیارِ ہند کے جلیل القدر عالم، رفیع المرتبت مفسر و محدث اور فقیہ تھے۔ ان کی وفات صفر ۱۳۳۸ھ بمطابق نومبر ۱۹۱۹ء کو شکرانواں میں ہوئی۔[2] 
[1] آخر الذکر دو کتابوں کا ذکر سلطان احمد نے اپنے مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی ’’عربی زبان و ادب میں علمائے بہار کا حصہ (۱۸۵۰ء تا ۱۹۵۰ء)‘‘ میں کیا ہے۔ اس مقالے پر ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ علی گڑھ سے ۲۰۰۴ء میں انھیں ڈاکٹریٹ کی سند ملی۔ [2] مولانا رفیع الدین شکرانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث (امرتسر) ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء (مضمون نگار: مولانا ابو طاہر بہاری)، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ نومبر ۱۹۱۹ء (مضمون نگار: حکیم وحید الحق مونگیری)، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۲۳۱، ۱۲۳۲)، ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جنوری ۱۹۵۷ء (مضمون نگار: مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری )، ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) فروری ۱۹۵۱ء (مضمون نگار: مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی)، ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ (۱/۳۴۷)، ’’اصحابِ علم و فضل‘‘ (ص: ۴۵۔۵۵) ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (ص: ۵۷)، ’’دبستانِ حدیث‘‘ (ص: ۲۵۱)، ’’نثر الجواھر و الدرر(ص: ۴۴۶، ۴۴۷)، ’’ارضِ بہار اور مسلمان‘‘ (ص: ۳۵۵)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۱/۹۷)، ’’غزنوی خاندان‘‘ (ص: ۵۶، ۵۷)، ’’حیاتِ نذیر‘‘ (ص: ۱۲۴، ۱۲۵)، ’’عربی زبان و ادب میں علمائے بہار کا حصہ (۱۸۵۰ء تا ۱۹۵۰ء) مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی۔