کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 413
’’آپ صاحبِ مکارم و فضائل اور خوش اخلاق تھے۔ آپ نے کتبِ نفیسہ حاصل کرنے کے لیے کافی دولت خرچ کی۔ بہت سی کتابوں کی خود کتابت کی اور اکثر کتب عرب و عراق سے لے کر آئے۔ ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تھے اور دلیل کی بنیاد پر فتویٰ دیتے تھے۔ تفسیر القرآن بالقرآن پر یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ہر روز لوگوں کے مجمع میں درس دیا کرتے تھے اور حدیث کا درس بھی دیتے تھے۔‘‘
مشہور دیوبندی عالم مولانا سیّد اصغر حسین، نے تقریباً ایک برس مولانا شکرانوی کی خدمت میں رہ کر ان سے کسبِ علم کیا۔ اس عرصے میں کتبِ صرف و نحو کے علاوہ قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا۔ مولانا اصغر حسین فرماتے ہیں :
’’اسی درسِ قرآن کی بدولت اسلامی توحید کا تخم قلب میں راسخ ہو گیا۔‘‘[1]
تدریس:
مولانا صاحبِ تدریس تھے، ان کے فیضِ علم سے متعدد طلابِ علم مستفید ہوئے۔ تلامذہ میں حسبِ ذیل علمائے کرام کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہو سکی: مولانا محمد ابراہیم شکرانوی بار ایٹ لاء (صاحبزادہ)، مولانا حافظ ضیاء الدین شکرانوی (صاحبزادہ)، مولانا حکیم عبد السلام شکرانوی (حفید)، مولانا سیّد اصغر حسین دیوبندی، مولانا عبد اللہ خراسانی اورمولانا فضل حق رمضان پوری۔
تصنیف و تالیف:
مولانا شکرانوی صاحبِ علم و قلم تھے۔ ان کے کلک گوہر بار سے جو کتابیں نکلیں ، گو آج وہ ہمارے سامنے نہیں اور نہ ان کے قلمی نسخوں ہی سے متعلق کوئی معلومات فراہم ہو سکی، تاہم ان کی جن کتابوں کے نام سے ہمیں آگاہی ہو سکی وہ حسبِ ذیل ہیں :
1 ۔رحمۃ الودود علیٰ رجال سنن أبي داود
2۔تعلیقات علیٰ سنن النسائي
3۔کتاب الأذکار
[1] ماہنامہ ’’رفیق‘‘ (پٹنہ) ’’علمائے بہار نمبر‘‘ جنوری و فروری ۱۹۸۴ء (۱۲۰)۔