کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 412
جس کی بھنک مولانا ڈیانوی کو لگی اور ا س کی طرف مبادرت کر کے دو شرحوں کی طرح ڈال دی جس کا قلق مولانا شکرانوی کو تا حیات رہا، لیکن حق یہ ہے کہ اس کی کوئی اصلیت نہیں ۔ ممکن ہے کہ مولانا شکرانوی کو خیال ہوا ہو مگر اس کا کوئی اثر مولانا ڈیانوی نے نہیں لیا۔‘‘[1]
عام طور پر سنن ابی داود سے متعلق مولانا شکرانوی کی جس تصنیف کا ذکر ملتا ہے اس کا نام ’’رحمۃ الودود علیٰ رجال سنن ابی داود‘‘ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ سنن ابی داود کے رجال سے متعلق کتاب ہے۔ مولانا ابو سلمہ نے مولانا شکرانوی کی مساعی سے طبع ہونے والی کتبِ علمیہ میں سنن ابی داود کا بھی شمار کیا ہے اور وہ شروح و حواشی کے ساتھ طبع ہوا تھا۔[2]
ان تصریحات کے بعد قارئینِ گرامی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ’’مولانا شکرانوی کی شرح ضائع کرا دی گئی یا ہو گئی‘‘ کی کیا حقیقت ہے؟
دو بزرگوں کے درمیان تقابل و مقارنہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ۔تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا ڈیانوی کی پوری زندگی کسبِ علم اور نشرِ علم سے معمور رہی اور علمِ حدیث کی جو گراں قدر خدمت انھوں نے ایک کوردہ دیہات میں رہ کر انجام دی، اس کا مقابلہ تیرھویں و چودھویں صدی ہجری کے معدودے چند ہی محدثین کر سکیں گے۔
علم و فضل:
مولانا رفیع الدین صاحبِ علم و فضل تھے۔ حکیم عبد الحی حسنی، مولانا کے اخلاقِ حسنہ، شوقِ علم و عمل، شعارِ عمل بالحدیث اور ذوقِ قرآن فہمی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ولہ مکارم و فضائل و أخلاق حسنۃ، بذل الأموال الطائلۃ في تحصیل الکتب النفیسۃ و استنسخھا و جبلھا من العرب و العراق، و لا یقلد أحداً من الأئمۃ، و یفتي بما یقوم عندہ دلیلہ، و لہ ید بیضاء في التفسیر، تفسیر القرآن بالقرآن، و یدرسہ کل یوم بمحضر للناس، و یدرس الحدیث‘‘[3]
[1] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جولائی ۱۹۵۱ء
[2] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) ۱۹۵۷ء
[3] ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (۱۲۳۲)