کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 411
فخر اقران و اماثل ذات او این چنیں ذاتے دریں ایام کو عالم فرزانہ دور زماں ہم فقیہ و ہم محدث بے گماں [1] علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی سے تعلق: اپنے معاصر علماء سے مولانا شکرانوی کے مخلصانہ روابط استوار تھے۔ شکرانواں کی طرح نالندہ ہی میں واقع ایک گاؤں ڈیانواں کے نام سے آباد ہے جسے علامہ شمس الحق صاحبِ ’’عون المعبود‘‘ کے وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مولانا رفیع الدین اور مولانا ڈیانوی نہ صرف ایک ہی سلکِ علم کے فیض یافتہ تھے، بلکہ ہم شرب و ہم ذوق بھی تھے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ میں ان بزرگوں کے باہمی روابط سے متعلق ایک بڑی غیر ذمے دارانہ بات تحریر کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں : ’’واللہ اعلم یہ کہاں تک صحیح ہے کہ شرح عون المعبود، جو غایۃ المقصود کا خلاصہ ہے، مولانا شمس الحق ڈیانوی نے ا س کی تالیف میں مولانا رفیع شکرانوی کی شرح ابو داود سے بہت نفع اٹھایا، لیکن افسوس کہ خود مولانا شکرانوی کی شرح ضائع کرا دی گئی یا ہو گئی۔‘‘[2] حقیقتِ حال کا اظہار تو ہم آیندہ سطور میں کریں گے، لیکن یہاں ذرا موضوع سے ہٹ کر قارئینِ گرامی کی خدمت میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے متاعِ فکر و تحقیقاتِ علم سے متعلق ان کے ’’صفاتِ ثلاثہ‘‘ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ مولانا گیلانی بلا شبہہ وسیع العلم اور وسیع النظر اصحابِ علم سے تھے، لیکن ان کی علمی و فکری زندگی کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ان میں ’’فاطمیت‘‘، ’’مقلدیت‘‘ اور ’’بہاریت‘‘ کا مادہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔ نکتہ آفرینی اور بات سے بات نکالنے کا جو ’’ذوق‘‘ مبدائے فیض نے انھیں دیا تھا، اس میں معدودے چند ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ حقیقتِ حال سے متعلق مولانا گیلانی کے ہم مشرب اور بہار ہی کے ایک جلیل القدر عالم مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں : ’’ہماری طرف یہ مشہور ہے کہ ابو داود کی شرح کا خیال اولاً مولانا رفیع الدین شکرانوی کو ہوا
[1] ’’جو اپنے زمانے کا بالیقین محدث وفقیہ اور اس دور کا نابغہ عالم اور فخر اقران و اماثل ہو، ایسی ذات اس وقت کہاں ملتی ہے!‘‘ [2] ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ (۱/۳۴۷)