کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 409
’’مولانا رفیع الدین شکرانواں کے مشہور صاحبِ عز و جاہ ذی علم تھے، ان کا علمی ذوق بھی بلند تھا، حدیث سے شغف رکھتے تھے، نوادر و مخطوطات کا بیش بہا ذخیرہ انھوں نے بھی جمع کیا تھا، ان کے اخلاف کے پاس پورا کتب خانہ اب تک محفوظ ہے، اس کتب خانہ کی اہمیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف سورتی تلمیذ علامہ طیب مکی نے بہار کے جن کتب خانوں کی سیر کی تھی، ان میں سے ایک مولانا رفیع الدین کا کتب خانہ بھی تھا۔ مولانا موصوف نے کتاب التمہید ابن عبد البر کی نقل مدینہ طیبہ سے منگوائی تھی۔ آپ کے پاس سنن دارقطنی کا ایک نا تمام لیکن بہت ہی قدیم و صحیح نسخہ تھا، اس نسخہ کی قدر و قیمت اس سے ظاہر ہے کہ بائیس حفاظ و محدثین کے دستخط اس پر موجود تھے، ان میں سے حافظ ابو الحجاج بن یوسف دمشقی، عبد المومن بن خلف دمیاطی، عبد الرحیم بن حسین العراقی، حافظ ابن حجر عسقلانی، شیخ عبید اللہ بن عمر العجمی، شیخ صلاح الفلانی جیسے اساطینِ حدیث بھی ہیں ۔
سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (۲۶۰ھ بمطابق ۸۷۰ء۔ ۳۶۰ھ بمطابق ۹۷۱ء) کی کتاب[1] المعجم الصغیر کا نسخہ مکتوبہ ۱۲۱۷ء جو پٹنہ لائبریری میں موجود ہے، مولانا رفیع الدین ہی کا عطیہ ہے۔ یہ نسخہ بہار کے مشہور صاحبِ جاہ و ثروت مولانا عبد العزیز مرحوم کو مکہ معظمہ میں دستیاب ہوا تھا، جس کو انھوں نے مولانا رفیع کے پاس شکرانواں بھیجا تھا۔‘‘[2]
مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری نے مولانا کے کتب خانے پر ایک نہایت عمدہ مضمون لکھا ہے، جو ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) میں طباعت پذیر ہوا۔ مولانا ابو سلمہ کے مطابق مولانا شکرانوی کے کتب خانے میں جو نوادرات موجود تھے ان میں ’’ لوامع الاسترشاد في الفرق بین التوحید و الإلحاد‘‘، ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘، ’’منہاج السنۃ‘‘، ’’کتاب العقل و النقل‘‘ کلھا لشیخ الإسلام ابن تیمیۃ رحمه اللّٰه ، ’’حادي الأرواح‘‘، ’’الطرق الحکمیۃ‘‘، ’’مدارج السالکین‘، ’’إغاثۃ اللہفان‘‘ کلھا للإمام ابن قیم الجوزیۃ، ’’شرح سنن ابن ماجہ‘‘ للحافظ مغلطائي، ’’التلخیص الحبیر‘‘، ’’الإصابۃ في تمییز الصحابۃ‘‘، ’’فتح الباري‘‘،
[1] کٹیلاگ کتب خانہ شرقیہ بانکی پور (ج ۵ حصہ اول) طبع ۱۹۲۵ء
[2] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) فروری ۱۹۵۱ء