کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 407
روابط کا باعث بنا۔ خدا بخش خاں وکیل تھے، انھیں کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوق تھا، جس کا ثمرہ ایک عظیم الشان کتب خانے کی شکل میں ظاہر ہوا جس کا فیض آج بھی جاری ہے۔ یہاں یہ امر بالخصوص لائقِ تذکرہ ہے کہ نادر کتابوں کی نشاندہی اور تحصیل میں مولانا شکرانوی کی معاونت ہمیشہ ان کے شریکِ حال رہی۔ بقول مولانا ابو سلمہ شفیع احمد:
’’مولانا کی رہنمائی اگر انھیں حاصل نہ ہوتی تو اتنی بڑی کامیابی مشکل سے ہو سکتی تھی۔ نادر کتابوں کے ذوق میں اضافہ اور ان کی نشان دہی میں بہت زیادہ مشورہ مولانا ہی نے دیا، اور اس طرح نادر مخطوطات کا ذخیرہ جمع ہو گیا۔‘‘[1]
مولانا منا ظر احسن گیلانی لکھتے ہیں :
’’پٹنہ کا مشہور مشرقی کتب خانہ خدا بخش لائبریری کے متعلق مولانا کے صاحبزادے برادر محترم مولانا عبد المتین نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی خدا بخش خاں اور مولانا رفیع الدین ان کے والد کے درمیان گہرے تعلقات تھے، نادر کتابوں کے ذوق میں اضافہ اور ان کی نشان دہی وغیرہ میں بہت زیادہ مشورہ ان کے والد ہی نے خدا بخش خاں کو دیا، ورنہ ظاہر ہے کہ خاں صاحب تو ایک وکیل آدمی تھے۔ اس لائبریری کی تاریخ میں اس حقیقت کو ظاہر کرنا چاہیے کہ اس کی نادر مخطوطات کے پیچھے ایک مُلّا کا علمی مشورہ بھی چھپا ہوا تھا۔‘‘[2]
بلاشبہہ اس عظیم الشان کتب خانے کی تاریخ میں اس حقیقت کا بر ملا اظہار کرنا چاہیے کہ اس کے قیام و ترقی میں مولانا شکرانوی کے ذوق و جستجو کو بھی دخل ہے، تاہم اس حقیقت کا اظہار احترام و قرینے سے بھی ہو سکتا تھا۔ ’’مُلّا‘‘ سے بہتر لفظ بھی لغت میں موجود ہے، اسے بھی تحریر کیا جا سکتا تھا، لیکن مولانا گیلانی کی شوخیِ تحریر اور ذوقِ تفرد کو کیا کہیے!!
ذاتی کتب خانہ:
خود مولانا کا کتب خانہ بھی طرح طرح کے مخطوطات اور نادر و نایاب کتابوں سے معمور تھا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رقمطراز ہیں :
[1] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) ۱۹۵۷ء
[2] ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ (۱/۳۴۷)