کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 406
’’بذریعہ تقریر و تحریر اشاعتِ اسلام نہایت گرم جوشی کے ساتھ کرتے رہے۔ قدماء اہلِ اسلام کے عقائد کی کتابوں کی اشاعت نہایت سعی کے ساتھ کی۔ احادیث کی کتابوں کی طبع کا خود اپنے مکان پر سامان کیا اور بعض کتابیں حدیث کی صحت کے ساتھ طبع کرا کے شائع کیں ۔‘‘[1] بعد ازاں مولانا نے یہ پریس ایک نو مسلم عالم کو بغرضِ تالیفِ قلب دے دیا، جو گیلانی سے تعلق رکھتے تھے۔ طلابِ علم کی کفالت: مولانا بڑے رقیق القلب تھے، باوجودیکہ شکرانواں کے سب سے بڑے رئیس تھے، لیکن علمِ دین کی وسعت و ہمہ گیری نے طبیعت میں عاجزی و انکساری پیدا کر دی تھی۔ غریبوں کی خبر گیری کرتے۔ اپنے پاس آنے والے طلابِ علم کی ضرورتوں کے کفیل ہوتے۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے مولانا کو دھن دولت سے بھی نوازا تھا اور اس نعمت سے پورا فائدہ اٹھایا، چنانچہ ہزاروں کار ہائے خیر کے علاوہ خود ایک اعلیٰ مدرسہ کے بانی اور اس کے سارے اخراجات کے کفیل تھے۔ حدیث کے طلبہ یمن، نجد، حجاز، عراق سے برابر آتے رہتے تھے۔ خراسان کے مولوی عبد اللہ مسلسل تین سال تک مقیم رہے، ان معزز مہمانوں کا مولانا کو بہت خیال رہتا تھا، ان کی معمولی تکلیف سے بے چین ہو کر تڑپ جاتے تھے۔ آم کے موسم میں روزانہ ٹوکریوں سے طلبہ کے کام و دہن کو نوازتے رہتے تھے۔ رمضان المبارک میں من ڈیڑھ من آٹے کی شیر مال، آبی و خصی کا گوشت قرب و جوار کے نادار مفلس لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔‘‘[2] خان بہادر خدا بخش خان سے تعلق: خان بہادر خدا بخش خاں کا ذوقِ کتب دنیا سے پوشیدہ نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ایسا لازوال ذخیرۂ کتب اپنے پیچھے چھوڑا جو آج بھی اہلِ علم کے لیے انتہائی کشش رکھتا ہے۔ مولانا شکرانوی بھی کتابوں کے از حد شائق تھے۔ یہی ذوق و شوق دونوں اکابر کے خوش گوار اور پائیدار
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء [2] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) ۱۹۵۷ء