کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 405
پر مامور ہوتے۔ تفسیر ابن کثیر پر گیارہ سو اور تفسیر ابن جریر طبری پر بائیس سو خرچ ہوئے۔ حجاز میں اس وقت ترکوں کی حکومت تھی۔ شکایت کی گئی کہ کتب خانے میں ہلڑ مچا ہوا ہے۔ چنانچہ تفتیش ہوئی اور ناظم کتب خانہ سے جواب طلب کیا گیا۔ ناظم نے جواب دیا کہ عموماً سبعہ معلقہ اور حماسہ کے شائقین کتب خانہ سے استفادہ کیا کرتے تھے، مگر اس ہندی نوجوان جیسا صاحبِ ذوق اور پاکیزہ اطوار میں نے نہیں دیکھا، اسے تفسیر و حدیث سے والہانہ عقیدت ہے، جان و مال دونوں نچھاور کرتا ہے اور انہی کی نقل لیتا ہے۔ سلطان بہت متاثر ہوا اور ہر طرح کی آسانی بہم پہنچانے کا حکم دیا اور مولانا سے ملنا چاہا، مگر مولانا ٹال گئے۔
مراجعتِ وطن:
بہار مراجعت فرمانے کے دوران میں بمبئی سے ایک پریس مشین خریدنے کے علاوہ بھوپال میں محدثِ شہیر شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے سند و اجازۂ حدیث حاصل کیا۔وطن پہنچ کر مولانا احیائے علم، اعلائے کلمۃ اللہ، اشاعۃ السنۃ، ترویجِ اقامتِ دین اور فروغِ عمل بالحدیث کے لیے مستعد ہو گئے۔
نادر علمی خزینوں کی طباعت:
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مولانا حجاز سے واپسی کے دوران میں بمبئی سے ایک پریس مشین خرید لائے تھے۔ چنانچہ اپنے گاؤں شکرانواں ہی میں مطبع احمدی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور قلمی کتابوں کی اشاعت کی۔ بقول مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری:
’’ذم التاویل لابن قدامہ، تائید مذہب السلف اور ابو داود مع شروح و حواشی اور بروایت بعض تفسیر ابن جریر طبری کے کچھ اجزاء طبع کیے۔‘‘[1]
مولانا مناظر احسن گیلانی نے مولانا رفیع الدین کی کوششوں سے طبع ہونے والی کتابوں میں ابن قتیبہ کی ’’تاویل الاحادیث‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔[2]
مولانا ابو طاہر بہاری، مولانا شکرانوی کی مساعی جمیلہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[1] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جنوری ۱۹۵۷ء
[2] ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ (۱/۳۴۷)