کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 404
من اللّٰه ‘‘ سے مزین کیا۔ چنانچہ عازمِ دہلی ہوئے اور سیّد نذیر حسین دہلوی سے کتبِ ستہ، موطا امام مالک اور تفسیر جلالین پڑھی۔ مولانا حکیم عبد الحی حسنی نے مولانا شریف حسین دہلوی کو رفیقِ درس شمار کیا ہے،[1] جو محلِ نظر ہے۔ جب کہ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری نے علامہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری اور علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کو رفقائے درس میں شمار کیا ہے۔[2]
مولانا عبد اللہ غزنوی کی بارگاہِ علم و فضل میں :
سیّد نذیر حسین سے مستفید ہونے کے بعد مولانا شکرانوی نے امرتسر کی طرف شدّ رِحال کیا، جہاں عارف باﷲ حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی کی صحبتِ مبارکہ روحانی فیوض و برکات کے حوالے سے اصحابِ خلوص کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی۔ جب حضرت غزنوی کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے فرمایا:
’’شما در اثناء راہ بودی کہ مرا الہام شد کہ ع مردہ باد کہ مسیحا نفسے می آید (تعبیر) از دست شما اشاعت توحید و سنت بسیار خواہد گشت ان شاء اللہ تعالیٰ۔‘‘[3]
امرتسر میں آٹھ ماہ قیام کر کے اکتسابِ فیض کیا۔
سفرِ حجاز، فریضۂ حج کی سعادت اور قلمی کتابوں کا حصول:
اس کے بعد مولانا عازمِ حرمین شریفین ہوئے، جہاں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ متعدد اہلِ علم و کمال سے بھی مستفید ہوئے، تاہم افسوس ہے کہ ان علما و مشائخ کے اسمائے گرامی سے آگاہی نہ ہو سکی۔
حجازِ مقدس میں سال، ڈیڑھ سال قیام رہا۔ زیادہ تر وقت کتب خانوں میں گزرا۔ خصوصیت کے ساتھ قلمی کتابوں کی طرف توجہ دی۔ جو روپیہ بچتا بے دریغ کتابوں پر لگا دیتے، خود عسرت میں رہتے۔ قیام مکہ مکرمہ میں رہتا مگر مدینہ میں بھی کتابیں نقل ہوتیں ۔ اوسطاً ڈیڑھ سو وراق روزانہ کام
[1] ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (۱۲۳۲)
[2] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جنوری ۱۹۵۷ء
[3] ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی) جنوری ۱۹۵۷ء
’’تم راستے ہی میں تھے کہ مجھے یہ الہام ہو گیا، ع مردہ باد! کہ مسیحائے نفس آرہا ہے (تعبیر) ان شاء اﷲ تمھارے ہاتھ سے توحید و سنت کی بہت زیادہ اشاعت ہو گی۔‘‘