کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 401
محلی (ف ۱۳۰۴ھ/ ۱۸۸۶ء) جیسے عظیم و جلیل مصنف و مدرس کے شاگرد تھے، برطانوی حکومت سے شمس العلماء کا خطاب بھی ملا تھا، مدرسہ عالیہ میں پرنسپل رہ چکے تھے، کئی کتابوں کے مصنف تھے۔‘‘[1] وفات: مولانا متاخر علمائے معقولات کے سر بر آوردہ رکن تھے۔ اب نہ یہ فن رہا ہے اور نہ اس فن کے ماہر علماء ہی ملتے ہیں ۔ مولانا نے ایک بھرپور علمی و تدریسی دور گزارا اور بالآخر ۲۸ ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ بمطابق مارچ ۱۹۱۹ء کو وفات پائی۔[2] 
[1] مولانا حکیم سید برکات احمد، سیرت اور علوم (ص: ۹۰) [2] شمس العلماء مولانا ابو الخیر عبد الوہاب بہاری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرہ علمائے حال (ص: ۵۷)، تردید العموم (ص: ۶ تا ۸)، نزہۃ الخواطر (ص: ۱۳۰۶)، نوادرات (ص: ۳۴۴)، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ (ص: ۶۲)، تذکرہ علمائے بہار (۱/۱۵۱)، شمس العلماء (ص: ۲۴۶، ۲۴۷)، مولانا حکیم سید برکات احمد (ص: ۹۰ تا ۹۶)، نثر الجواھر و الدرر (ص۸۳۸)