کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 400
’’و کان فاضلاً بارعاً في المنطق و الحکمۃ، کثیر الدرس و الإفادۃ، أخذ عنہ غیر واحد من الأعلام‘‘[1]
’’آپ منطق و حکمت کے زبردست فاضل تھے، کثیر الدرس اور فائدہ پہنچانے والے۔ کئی ایک علماء نے ان سے استفادہ کیا۔‘‘
مولانا محمد ادریس نگرامی ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ میں مولانا عبد الوہاب کے حالات میں لکھتے ہیں :
’’آپ کو معقولات میں زیادہ تبحر ہے۔ مدت تک مدرسہ دار العلوم کان پور میں مدرس رہے۔ مثنوی مولانا روم کا خوب بیان کرتے ہیں ۔‘‘[2]
مولانا حافظ اسلم جیراج پوری اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :
’’مولوی عبدالوہاب صاحب بہاری، علومِ عقلیہ کے مسلّم استاد اور میدانِ مناظرہ کے شہسوار تھے۔ ان کی طبیعت ادیبانہ تھی اور مزاج میں ظرافت، اس وجہ سے کبھی بحث میں ان کو غصہ نہیں آتا تھا۔ مجھ کو دیگر علماء اہلِ حدیث[3] کی بہ نسبت ان سے زیادہ دل چسپی ہوئی۔ نہایت خوش گپ تھے اور اپنے سامنے کسی کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ کسی بات پر کوئی ٹوک دیتا تو پوری منطق مقابلہ میں صرف کرتے اور آخر منوا کر چھوڑتے، پھر بھی دلیلوں کا سلسلہ نہیں ٹوٹتا تھا۔ سانڈ کی حلت کے قائل تھے۔‘‘[4]
ہمارے محترم معاصر اور اس عہدِ آخر میں فنونِ منطق و معقولات کے ماہر مولانا حکیم محمود احمد برکاتی رقمطراز ہیں :
’’صوبہ بہار (ہند) ہر دور میں مختلف فنون میں اکابر و اعاظم پیدا کرتا رہا ہے۔ اس بیسویں صدی کے آغاز میں بھی مولانا برکات احمد کے ایک ہم عصر، مولانا عبد الوہاب بہاری، معقولات میں اپنی عظمتِ مقام اور کمالِ فن کا عَلم لہرائے ہوئے تھے۔ مولانا عبد الحی فرنگی
[1] نزہۃ الخواطر( ص: ۱۳۰۶)
[2] تذکرہ علمائے حال (ص: ۵۷)
[3] مولانا عبد الوہاب بہاری اہلِ حدیث نہیں تھے، اس کا ذکر گذشتہ صفحات میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔
[4] نوادرات (ص: ۳۴۴)