کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 397
’’فاضل بہاری کو چونکہ مولوی بشارت کریم مرحوم دیسنوی اور مولوی سعید مرحوم بنارسی اور مولوی قاری عبد اللہ مرحوم شاہ پوری اور شیخنا و شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین مرحوم محدث دہلوی سے تلمذ حاصل ہے اورعلماء اہلِ حدیث سے میل جول بھی زائد رکھتے تھے اور اہلِ حدیث ان کو حضرات احناف کی طرح اہلِ حدیث سمجھتے تھے۔ اس لیے مدرسہ عالیہ کلکتہ میں حنفیت کے اظہار کیے بغیر وقعت ہونی مشکل دیکھ کر الاحقاق[1] شائع کرنا ضروری تھا۔‘‘[2]
مولانا حافظ اسلم جیراج پوری نے اپنے زمانۂ طالب علمی کی یادوں کو قلم بند کیا ہے جس میں انھوں نے مختلف علما کا ذکرِ خیر کیا ہے۔ علمائے اہلِ حدیث کے ذیل میں انھوں نے مولانا عبدالوہاب بہاری کے حالات بھی لکھے ہیں ۔ یہ مضمون اسی زمانے میں کئی رسائل و جرائد میں طبع ہوا جن میں سے ایک ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) بھی ہے۔ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں صرف اہلِ حدیث اکابر کے حالات کا حصہ شائع ہوا۔ مولانا عبد الوہاب بہاری سے متعلق مولانا ثناء اللہ امرتسری نے یہ حاشیہ لگایا:
’’آپ ہمیشہ بلباسِ حنفیت رہے۔‘‘[3]
حلقۂ درس:
مولانا اپنے عہد میں فنِ معقولات کے امام تھے۔ انھوں نے مختلف مقامات پر تدریس کے فرائض انجام دیے۔’’ مدرسہ اسلامیہ‘‘ کان پور،’’مدرسہ نظامیہ‘‘ حیدر آباد دکن اور ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ میں مولانا کا غلغلۂ تدریس بلند ہوا۔ معقولی طلبا کی ایک کثیر تعداد ہر جگہ ان سے کسبِ علم کرنے امڈ پڑتی تھی۔ تلامذہ و مستفیدین بکثرت ہیں ، چند نام حسبِ ذیل ہیں :
شمس العلما مولانا محمد یحییٰ سہسرامی، مولانامفتی محمد سہول بھاگل پوری، مولانا ابو الفتح حسین احمد سلہٹی، مولانا ممتاز الدین احمد نواکھالی، مولانا حکیم الٰہی بخش مبارک پوری وغیرہم۔
[1] طلاقِ ثلاثہ سے متعلق مولانا عبد الوہاب فاضلِ بہاری کی کتاب، جو حنفی فقہ کے مطابق ہے۔
[2] تردید العموم (ص: ۷، ۸)
[3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۵ جون ۱۹۳۷ء