کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 396
’’فاضل بہاری‘‘ اور ’’فخرِ بہار‘‘ کہے جاتے تھے۔
مسلکِ اہلِ حدیث سے تعلق:
مولانا ابتدا میں اپنا انتساب اہلِ حدیث مسلک کی جانب کراتے تھے۔ انھیں متعدد علمائے اہلِ حدیث سے نسبتِ تلمذ بھی حاصل تھا، مگر ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ میں ملازمت کی خاطر مولانا نے خود کو حنفی باور کرایا اور پھر ہمیشہ بہ لباسِ حنفیت ہی رہے۔ مولانا ابو تراب عبد الرحمن گیلانی ’’تردید العموم‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’خبر محقق ہے کہ فاضل بہاری نے (قبل از ملازمت مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ) استاد علامہ مولانا ابو الطیب شمس الحق صاحب ۔مد فیضہ۔ محدث ڈیانوی کی خدمت میں جا کر کہا کہ مولوی ابو النصر صاحب کا رسالہ ’’الغیاث‘‘[1] اگر آپ کے پاس موجود ہو تو عنایت فرما دیں میں اس کی تردید کرنا چاہتا ہوں ۔ مولانا نے ان کو وہ رسالہ عنایت فرمایا۔ فاضل بہاری نے مدرسہ عالیہ میں ملازم ہونے کے ساتھ ہی اظہارِ حنفیت کی غرض سے ’’الغیاث‘‘ ہی کے مضامین کے مطابق رسالہ شائع کر دیا۔
’’مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے والد علامہ[2] کو فاضل بہاری سے موضع چوارہ میں حاجی عبد الستار صاحب کے لڑکے عبد الجبار مرحوم کے عقیقہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ والد علامہ مدظلہ نے فاضل بہاری کو اس مضمون کا استفتاء دیا کہ طلاقِ ثلاثہ واقعہ جلسہ واحدہ واحد رجعی ہے یا مغلظہ؟ فاضل بہاری نے اس کا جواب اپنے قلم سے لکھا تھا کہ ایسی تین طلاق واحد رجعی ہے۔ افسوس ہے کہ یہ فتویٰ فاضل بہاری کا ہماری غفلت سے گم ہو گیا اور یہی وجہ ہوئی کہ مقدمہ المغاث کے اخیر میں درج نہ ہو سکا۔
[1] مولانا عبد اللہ پنجابی گیلانی نے’’تحقیق المغاث في مسألۃ الطلاق‘‘ لکھا جس میں طلاقِ ثلاثہ دفعتاً کے واحد رجعی ہونے کا بیان ہے۔ اس کا رد مولوی ابو النصر گیلانی نے ’’الغیاث من المغاث‘‘ کے نام سے لکھااور حنفی نقطۂ نظر کی تائید کی۔
[2] مولانا ابو عبد الرحمن عبد اللہ پنجابی گیلانی، مشہور اہلِ حدیث عالم، میاں صاحب کے شاگردِ رشید۔ کتاب ہذا میں ان کے حالات موجود ہیں ۔