کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 391
جناب شہاب الدین کے تاثرات:
راقم کو اپنی ایک خاندانی تقریب میں جناب شہاب الدین سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ ہمارے رشتے دار ہی تھے، تاہم قبل ازیں تعارف نہ تھا۔ مجھے یہ جان کر از حد خوشی ہوئی کہ وہ مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کے حقیقی پوتے ہیں ۔ ان کی عمر اس وقت ۸۰ کے قریب ہے۔ کراچی میں میری رہایش گاہ سے قریب ہی ان کی رہایش گاہ ہے۔ ان سے مجھے بعض قیمتی معلومات حاصل ہوئیں ۔ انھوں نے بتایا کہ مولانا نے ایک خاندانی بیاض بھی مرتب کر رکھی تھی جس میں بڑی قیمتی معلومات درج تھیں ۔ یہ بیاض وراثتاً انھیں ملی تھیں ، مگر افسوس ان سے ضائع ہو گئی۔ اگر میں یہ کہوں کہ انھیں کہہ کر اس قدر دکھ نہیں ہوا ہو گا جس قدر مجھے سن کر صدمہ ہوا، تو شاید بے جا نہ ہو۔ ان کے بقول مولانا میں بڑی دینی حمیت تھی۔ جب وہ حجازِ مقدس تشریف لے گئے تو ایک موقع پر ایسا ہوا کہ پاشا مکہ سے ملنے گئے، دیکھا پاشا اس وقت شطرنج کھیل رہا ہے، ان سے برداشت نہ ہوا اور اسے سختی سے ڈانٹ دیا۔ پاشا کے لیے بھی ان کی ڈانٹ قابلِ برداشت نہ تھی، اس نے انھیں روک لیا اور درشتی سے پیش آیا، تاہم جلد ہی بعض رفقا کے سمجھانے سے پاشا کو احساس ہوا کہ اس کا فعل غلط تھا اور مولانا نے اتباعِ سنت کے خیال سے اسے ڈانٹا تھا، لہٰذا مولانا کو جانے کی اجازت دی۔مولانا کی سخت مزاجی معروف تھی، لیکن اپنی غلطی کا احساس ہو جانے کے بعد فوراً اس کا ازالہ کرتے۔ طلبا انھیں ان کی سختی کے باعث ’’مولوی کلکٹر‘‘ کہا کرتے تھے۔ مولانا نے اپنی بیشتر زندگی دہلی میں گزار دی، لیکن آبائی مسکن سے ہمیشہ تعلق بر قرار رکھا۔
اولاد و احفاد:
مولانا کے دو صاحبزادے تھے: عبد الحلیم اور عبد الودود۔ دونوں بھائیوں میں بڑی محبت تھی۔ اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مدرسہ ریاض العلوم سے کسبِ علم کیا۔ مولانا عبد الحلیم کی ولادت ۱۸۹۵ء میں ہوئی۔مولانا عبد الودود کی ولادت ۱۹۰۱ء میں ہوئی، مگر افسوس عین عالمِ شباب میں ۱۹۱۹ء میں وفات پائی۔ مولانا عبد الحلیم کے ایک صاحبزادے شہاب الدین ہیں ، جن کا ذکر گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ مولانا تلطف حسین اپنے عہد میں مسلکِ سلف کے بہت بڑے علمبردار اور ناشر و داعی تھے، لیکن افسوس اب ان کی نسل میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ان کے علمی ورثے کا جا نشیں اور مسلک و نظریات کا حامل ہو۔