کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 390
دارقطنی و اعلام الموقعین وغیرہ بڑی بڑی حدیث کی کتابوں کی تصحیح و طبع کرانے میں کوشش (کی) اور کامیاب ہوئے۔ علمِ میراث میں بہت ماہر تھے۔ قانون سے بھی خوب واقف تھے۔ مقدمات میں اکثر لوگ ان سے رائے لیا کرتے تھے۔ جناب میاں صاحب محدث دہلوی جب حج کو تشریف لے گئے تو آپ ہمراہ تھے۔ وہاں جاکر مخالفین نے جو کچھ کارروائی کی، اس میں آپ نے شیخ کا پورا ساتھ دیا جو اشاعۃ السنۃ اس سال سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے۔ آپ کے دہلی میں ابتداءً آنے کا قصہ بھی ایک عجیب سرگزشت ہے جو پرانے لوگ ہی جانتے ہیں اور وہ خود بھی بیان کیا کرتے تھے۔ اس مختصر میں اس کی گنجایش نہیں ۔ آدمی بہت مدبر اور دور اندیش تھے۔ بدعت کی تردید میں رسالہ بازی اور اشاعتِ اشتہار میں بھی بہت کوشش کیا کرتے تھے۔ ذرا زود رنج تھے، مگر قلب صاف تھا۔ بات کے پکے تھے۔ اللّٰھم اغفرلہ و ارحمہ‘‘[1] مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ: مولانا تلطف حسین کی وفات پر مولانا ثناء اللہ اپنے مختصر سے تعزیتی شذرے میں لکھتے ہیں : ’’ہندوستان بھر کے اہلِ حدیث جانتے ہیں کہ حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مصاحب اور ہمدرد و ہمدم جناب مولوی تلطف حسین صاحب تھے جنھوں نے دہلی ہی میں اقامت کر لی تھی۔ آپ نے بہت سی عربی کتابیں طبع کرائی تھیں ۔ شروع زمانہ اشاعتِ توحید و سنت میں بہت سے مقدمات میں آپ نے دخیل ہو کر اہلِ حدیث قوم کو فائدہ پہنچایا۔ آہ! جناب حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری اور مولوی محمد حسین صاحب دہلوی اطلاع دیتے ہیں کہ موصوف طویل علالت کے بعد ۲ فروری کو انتقال کر گئے ۔إنا ﷲ۔ اللہ تعالی مرحوم کو بخشے اور پسماندگان کو صبر دے۔ دونوں حضرات ناظرین سے جنازہ غائب اور دعاء مغفرت کی استدعا کرتے ہیں ۔ غفر اللّٰه لہ و رحمہ ‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۶ دسمبر ۱۹۱۸ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۱ فروری ۱۹۱۶ء