کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 388
دوسرے تلامذہ پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ کاش کوئی محقق مولانا کی ان منتشر تحریروں کو یکجا کر دے۔ یہ یقینا ایک عمدہ دینی خدمت ہو گی۔ علامہ شمس الحق سے تعلقِ خاص: علامہ شمس الحق کے ساتھ تو مولانا تلطف حسین کا دیرینہ اور انتہائی مستحکم تعلق تھا۔ دونوں دودمانِ صدیقی کے رکن تھے اور ان کے خاندان آپس میں مصاہرانہ تعلق بھی رکھتے تھے۔ مولانا تلطف حسین عمر میں بڑے تھے، لیکن علامہ شمس الحق رشتے میں ان کے چچا تھے۔ نسب و خاندان کی یکجائی سے کہیں بڑھ کر توحید و سنت نے انھیں ایک ہی سلکِ علم سے پرو رکھا تھا۔ خود علامہ شمس الحق فرماتے تھے: ’’جناب مولانا علیم الدین حسین نگرنہسوی رحمہ اللہ تعالی کے وعظ و نصائح سے ہم کو بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالی نے شوقِ اتباعِ سنت انہی کے واسطہ سے ہم کو عطا فرمایا ہے اور میرے رفیقِ حبیب مولوی تلطف حسین صاحب محی الدین پوری ثم نگرنہسوی نے بھی ان امور میں میری بڑی مدد کی ہے۔ جزاھما اللّٰه خیرا‘‘[1] علامہ شمس الحق تصنیف و تحقیق کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور مولانا تلطف حسین نشر و اشاعت کی دنیا سے۔ یہ دونوں ہی دنیائیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ چنانچہ ان دونوں ہی بزرگوں کا تعلق بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی قدر مضبوط و مستحکم رہا۔ علامہ شمس الحق کی تقریباً تمام کتابوں کو مولانا تلطف حسین نے اپنے اہتمام خاص سے طبع کیا۔ محدث عظیم آبادی کی جو کتابیں مطبع فاروقی سے بھی طبع ہوئیں ، ان کی اہتمام طباعت کا ذمہ بھی مولانا تلطف حسین ہی کے سر تھا۔ علامہ شمس الحق نے مطبع انصاری کی طبع شدہ کئی کتابوں کی تصحیح کی اور ان پر انتہائی قیمتی تعلیقات بھی لکھیں ۔ علامہ شمس الحق نے سنن ابی داود کی شرحِ عظیم ’’غایۃ المقصود‘‘ لکھنا شروع کی تھی، لیکن یہ شرح بڑی طویل تھی، اس کی طوالت کے پیشِ نظر مولانا تلطف حسین نے علامہ کی توجہ اس کی تلخیص کی طرف کرائی۔ چنانچہ مولانا ہی کی تحریک و تشویق سے علامہ عظیم آبادی نے ’’غایۃ المقصود‘‘ کی تلخیص ’’عون المعبود‘‘ کے نام سے کی جو آج مشہورِ عالم ہے۔
[1] یادگارِ گوہری (ص: ۱۰۴۔۱۰۶)