کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 387
ردِ قادیانیت: مولانا کے عہد میں قادیاں سے ایک دجالِ کاذب مرزا غلام احمد کا ظہور ہوا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس عہد کے بہتیرے علمائے حق نے اس کی بھرپور تردید کی جن میں مولانا تلطف حسین بھی شامل تھے۔ خود مرزا نے اپنی تحریروں میں انھیں اپنے مخالف کی حیثیت سے ذکر کیا ہے۔ پیر مہر علی شاہ کے ساتھ جن علماء کو مخاطب کر کے مناظرے کا چیلنج دیا ہے، ان میں ۳۲ ویں نمبر پر مولانا کا نام مرقوم ہے۔[1] اسی طرح ۱۹۰۰ء میں حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر کو مخاطب کر کے جو مناظراتی اشتہار مرزا نے شائع کروایا تھا، اس میں بھی مولانا کا نام درج تھا۔[2] اپنی کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ میں بھی اپنے مخالف علماء کے ذیل میں اس نے مولانا کا نام درج کیا ہے۔[3] مولانا تلطف حسین کے مطبع سے مرزا کی تردید میں کتابیں طبع ہوئیں اور اشتہارات شائع کیے گئے۔ مولانا کا مرکز تجارتِ کتب مرزا کے خلاف نشر و اشاعت کا ایک اہم مرکز تھا جہاں سے مرزا کی سختی سے تردید کی گئی اور اس کے خلاف لٹریچر فراہم کیا گیا۔ فتاویٰ اور دیگر تحریریں : ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں مولانا کے متعدد فتاوے ملتے ہیں جن سے ان کی تبحرِ علمی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مختلف کتابوں میں ان کی منتشر تحریر ملتی ہیں ، مثلاً: مولانا علیم الدین حسین نگرنہسوی کی کتاب ’’فیصلۃ العلیم لرفع البہتان العظیم‘‘ میں ایک ہی طہر میں دی گئی تین طلاقوں سے متعلق مولانا کی ایک تحریر ملتی ہے جو دو صفحات پر محیط ہے۔[4] تلاشِ بسیار کے بعد ایسی مزید مزید تحریریں بھی مل سکتی ہیں ۔ مولانا جماعتِ اہلِ حدیث کے صفِ اوّل کے عالم تھے۔ انھوں نے حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کی فیضِ صحبت میں جس قدر طویل عرصہ گزارا، اس کی مثال
[1] مہرِ منیر (ص: ۲۱۸) [2] روحانی خزائن (۱۷/۳۷، ۳۸۶) [3] روحانی خزائن (۱۰/۹۴) [4] فیصلۃ العلیم لرفع البہتان العظیم (ص: ۷۹۔۸۰)