کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 386
مولانا مسجد کلاں صدر بازار میں خطبہ دیتے اور عوض میں صرف دس روپے ملتے۔ جمعہ کے بعد کوئی پانی تک نہ پوچھتا تھا۔ مولانا واپس آکر وہ دس روپے بلیماران دکان پر جمع کر کے قرض ادا کرتے۔ راستہ میں کسی صاحبِ خیر نے تھوڑا بہت تعاون کر دیا تو فوراً وہاں جمع کر دیتے تھے۔ اللھم اغفر لہ ’’شیخ الحدیث بستوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا آمد و خرچ کا رجسٹر دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کہاں کہاں کے لوگوں سے ماہانہ تعاون حاصل کرتے تھے اور کن مدات میں خرچ کرتے تھے۔ آمد و خرچ کا حساب کتاب کتنا صاف رکھتے تھے۔‘‘[1] آخری عمر میں جب مولانا بستوی بیمار پڑے تو مدرسے کی آمدنی محدود اور مسدود ہو گئی۔ ایک ایک کر کے اساتذہ بھی رخصت ہو گئے اور تلامذہ بھی کنارہ کرتے گئے۔ ۱۹۷۴ء میں ایسا دور بھی آ گیا کہ صرف تین طلبا کے ساتھ مولانا بستوی مدرسے کے واحد استاد تھے۔ ۶ فروری ۱۹۷۴ء /یکم محرم ۱۳۹۴ھ کو مولانا بستوی نے دارِ آخرت کی راہ لی۔ مولانا بستوی کی وفات کے بعد ۱۶ فروری کو خواجہ محمد سلیم علی جان دہلوی کی زیرِ صدارت میٹنگ ہوئی جس میں مدرسے کو باقاعدہ چلاتے رہنے اور اس کے لیے مالی امداد کی فراہمی کی قرار داد باتفاق رائے منظور ہوئی۔ عبد الحی صاحب کو منتظمِ مدرسہ اور مولانا فضل الرحمن مرکزی کو صدر مدرس مقرر کیا گیا۔ مدرسے کے لیے مزید اساتذہ کی تقرری بھی عمل میں آئی۔ الحمد للہ اس کے بعد مدرسے کا علمی سفر کسی شدید ترین بحران کے بغیر تاہنوز جاری ہے۔ تازہ ترین صورتِ حال کے مطابق مدرسے کا علمی سفر شاندار انداز سے جاری ہے۔ ۲۰۱۵ء میں مدرسے میں ۱۶ اساتذہ تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے اور اڑھائی سو سے زائد طلابِ علم اس سرچشمۂ علم سے مستفید ہو رہے تھے۔ شاید یہ بانیانِ مدرسہ مولانا تلطف حسین، مولانا عبد المجید اور الحاج فضل الٰہی کی حسنِ نیت کا اجر ہے کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود مدرسہ چلتا رہا۔ کئی ایسے مواقع آئے کہ جب مدرسہ اپنی مدتِ حیات کی تکمیل کے قریب پہنچ چکا تھا، مگر تائیدِ ایزدی سے علم کا یہ سرسبز باغ، جس کے سوتے خشک ہو چکے تھے، دوبارہ بہاروں سے لہلہا اٹھا۔
[1] مدارس اہلِ حدیث دہلی، ایک تاریخی دستاویز (ص: ۱۳۱)