کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 385
میں حاجی محمد صدیق صاحب اپنا مدرسہ ’’جامع اعظم‘‘ اٹھا کر اپنی مسجد بلیماران لے آئے اور مولانا عبدالغفور ملا بسکوہروی کو صدرِ مدرس مقرر کیا۔ حاجی صدیق صاحب کی وفات ۱۹۷۲ء میں ہوئی اور ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ مدرسہ بھی قصۂ پارینہ بن گیا۔ دوسری طرف ’’مدرسہ رشیدیہ‘‘ بھی یہاں سے اٹھ گیا۔ ’’مدرسہ رشیدیہ ‘‘ بھی زیادہ عرصہ اپنی آب و تاب برقرار نہ رکھ سکا۔ تاہم ایک خوش قسمتی یہ رہی کہ ان دونوں مدارس کے ساتھ جو کتب خانے آئے تھے وہ ’’ریاض العلوم‘‘ ہی میں محفوظ رہے۔
مدرسہ ’’ریاض العلوم‘‘ کی نظامت کی ذمے داری اب مولانا عبد السلام بستوی پر تھی۔ الحاج فضل الٰہی کے صاحب زادے ایس ایم عبد اللہ کی جانب سے مالی معاونت کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ مولانا تقریظ احمد سہسوانی کا تعاون بھی مولانا بستوی کو حاصل تھا۔ مولانا نے ایک ماہنامہ ’’ترجمان الاسلام‘‘ کا اجراء بھی کیا۔ اپریل ۱۹۵۱ء میں الحاج فضل الٰہی کے صاحبزادے ایس ایم عبد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادگان نے مدرسے کی کفالت کی ذمے داری لی، تاہم ۱۹۵۶ء میں بعض کاروباری مشکلات کے باعث وہ اس ذمے داری سے دست کش ہو گئے۔ یہ ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا۔ مدرسے کے لیے مالی امداد کی فراہمی بھی اب شیخ الحدیث مولانا بستوی کے ذمے تھی۔ جناب خالد حنیف صدیقی لکھتے ہیں :
’’مولانا عبد السلام بستوی کا تعلق ابھی تک تدریس و تعلیم اور تصنیف و تالیف سے تھا۔ اب مزید ایک ذمے داری مدرسہ کے لیے مالی فنڈ کی فراہمی کی بھی آگئی۔ لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری اور ایک منتظمہ کمیٹی تشکیل دے کر ۱۹۵۶ء سے ۱۹۷۴ء تک مدرسہ کے تعلیمی و تعمیری سلسلہ کو جاری رکھا۔ دہلی کے صاحبِ خیر جماعتی احباب سے مل کر ان سے ماہانہ تعاون کی اپیل کی۔ تعلیمی اوقات میں طلبا کو پڑھاتے، بعد نمازِ عصر دہلی کے جماعتی حلقوں میں جا کر تعاون حاصل کرتے، رات کو تصنیف و تالیف کا کام کرتے، جمعہ جماعات کا اہتمام کرتے۔ آمدہ استفتاء کے جواب لکھتے۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے، بال بچوں کے بھی حقوق ادا کرتے۔
’’مدرسہ کے ایک طالبِ علم مولانا عبد العزیز سلفی (مدیر ماہنامہ نوائے اسلام، دہلی ) کی روایت کے مطابق طلبا کے خور و نوش کا سامان بلیماران کی ایک دکان سے آتا تھا۔