کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 384
۱۸۸۴ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک مدرسے میں طلبا کی تعداد ۱۸۔۲۰ سے کبھی زیادہ نہیں رہی، یہی حال اس وقت تقریباً مدارس دہلی کا تھا، جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا گیا کہ اس مدرسے پر مختلف ادوار آئے۔ کئی بار مدرسہ اپنے قیام و بقا کے شدید ترین بحرانی دور سے گزرا۔ ہر بار اللہ نے ایسے اصحابِ عزیمت پیدا کیے جنھوں نے بفضلہٰ تعالیٰ مدرسے کو اس شدید بحرانی کیفیت سے باہر نکالا۔ ۱۳۵۵ھ میں دہلی میں بعض اکابرِ جماعت کے مشورے سے دہلی کے دو اہلِ حدیث مدارس کو ’’ریاض العلوم‘‘ کے ساتھ یکجا کر دیا گیا اور مدرسے کا نیا نام ’’جامع اعظم‘‘ رکھا گیا۔ مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : ’’جامع اعظم ۱۳۵۵ھ (مطابق ۱۹۳۵ء ) میں مسجد مچھلی والاں میں قائم ہوا جس کے بانی و ناظم صاحبِ ترجمہ (مولانا عبید اللہ عبد الشکور) کے والدِ ماجد جناب مولانا حکیم عبید الرحمن صاحب عمر پوری ہیں ۔ اس میں دہلی کے مندرجہ ذیل اہلِ حدیث مدرسے منظم ہیں : 1۔ قدیم مدرسہ ریاض العلوم واقع مسجد مذکور۔2۔ مدرسہ ( مع کتب خانہ) جناب حاجی عبد الحق صاحب تیزاب والے (محلہ بلیماران)۔3۔ مدرسہ رشیدیہ (مع کتب خانہ و اساتذہ واقع اجمیری دروازہ)۔ مدرسہ جامع اعظم کی خصوصیت میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس میں علومِ عربیہ کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدہ انگریزی و تاریخ، جغرافیہ، و ریاضی وغیرہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں خیر و برکت فرمائے۔‘‘[1] ۱۹۴۷ء کے فسادات جب فرو ہوئے تو دہلی میں اساتذہ و طلبا کی آمد کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مولانا عبد السلام بستوی جو ۱۹۴۷ء سے قبل مدرسہ علی جان دہلی (واقع کٹرہ ہردیال، چاندی چوک) میں ۱۶ برس تدریس کے فرائض انجام دے چکے تھے، واپس دہلی تشریف لائے۔ مدرسہ علی جان کے اجراء کی کوشش کی، لیکن مدرسے کے سابق ناظمین کی جانب سے کسی دل چسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ جب اس کے اجراء کی صورت نظر نہ آئی تو مولانا بعض احباب کے مشورے سے ’’ریاض العلوم‘‘ تشریف لے آئے جو اب ’’جامع اعظم‘‘ بن چکا تھا۔ تاہم کچھ ہی عرصہ بعد کچھ ایسے ناگفتہ بہ حالات پیش آئے کہ ۱۹۴۹ء
[1] تراجم علمائے حدیث (۱/ ۲۰۲)