کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 383
’’مولانا تلطف حسین صاحب اس مدرسے کے مہتمم اور سرپرست بنائے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ارزانی اپنے عروج پر تھی۔ تمام مدارسِ عربیہ میں طلبا کو دو روپے ماہوار وظیفہ اور کہیں صرف آٹا مقرر تھا، مگر مولانا تلطف حسین صاحب نے، جن کو طلباء سے بڑی محبت تھی، چار روپے ماہوار وظیفہ مقرر فرمایا تھا۔ ہاں ان کی طرف سے طلبا پر ایک ہی پابندی تھی کہ طلباء کہیں دعوت میں نہ جائیں ۔ کچھ حکمت و مصالح تھیں ، جن کی بنا پر مولانا نے یہ پابندی لگائی تھی۔ طلباء کی تعلیم پر مولانا کی کڑی نگاہ رہتی تھی اور وہ اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی طالب علم فیل ہو جائے۔ ہر ماہ تمام طلبا کا امتحان ہوتا تھا۔ جو طالبِ علم مسلسل تین ماہ فیل ہوتا تھا، مولانا اس کو برداشت نہ کرتے اور مدرسہ سے خارج کر دیتے تھے۔ یہ ماہانہ امتحان مولانا بذاتِ خود لیا کرتے تھے۔ ’’مدرسہ ریاض العلوم کی بابت مولانا فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تعلیمی قلعہ بنوایا ہے۔ طلباء آزادی سے رہیں اور آزاد فضا میں دینی تعلیم حاصل کریں ، مگر کہیں دعوت میں نہ جائیں اور امتحان میں فیل نہ ہوں ۔ مولانا حساب داں طلباء سے بہت خوش رہتے تھے۔ یوں تو مولانا کو تمام علوم میں درجۂ کمال حاصل تھا، لیکن علمِ ریاضی کے امام تھے۔ بڑے حاضر جواب اور مناظر تھے۔‘‘[1] مولانا عبد اللہ شائقؔ مؤی لکھتے ہیں : ’’جامعہ ریاض العلوم کی عنانِ نظامت مولانا تلطف حسین صاحب بہاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں میں تھی۔ دہلی کے اہلِ حدیث رؤساء عظام مالیات کے کفیل تھے۔ عجیب خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ناظم حسنِ تدبیر و تدبر کے جامع، رؤسا اہلِ حدیث جود و سخا کے پیکر، مدرسین اخلاص و تدین کے مرقع، طلبا شعارِ اطاعت و محنت سے مزین۔ جامعہ ریاض العلوم اپنی تمام ظاہری و باطنی خوبیوں کے ساتھ اشاعتِ دین اور اعلاء کلمۃ اللہ میں رواں دواں تھا۔‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ (دہلی) ’’ریاض العلوم ‘‘نمبر۔ [2] اخبار’’اہلِ حدیث‘‘ (دہلی) ۱۵ مارچ ۱۹۶۰ء