کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 382
۱۳۰۲ھ / ۱۸۸۴ء کو مولانا تلطف حسین نے اپنے دو اہم قریبی رفقا الحاج فضل الٰہی (م۱۹۲۵ء) اور مولانا عبد المجید (م ۱۹۰۷ء) کے ساتھ مل کر مدرسہ ’’ریاض العلوم‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ مولانا اور ان کے رفقائے کرام کا اخلاص ہی تھا کہ یہ مدرسہ آج بھی قائم ہے اور دہلی میں موجود اس وقت جماعت اہلِ حدیث کا قدیم ترین مدرسہ یہی ہے۔ مختلف ادوار میں یہاں استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری، مولانا حافظ عبد الرحمن بقاؔ غازی پوری، مولانا شرف الدین دہلوی، مولانا عبد الرحمن پنجابی دہلوی، مولانا محمد سورتی، مولانا عبد السلام بستوی، مولانا تقریظ احمد سہسوانی، جیسے جہابذئہ علم نے تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس درس گاہِ علم سے مولانا عبد اللہ شائقؔ مؤی، مولانا عبد الوہاب آروی، مولانا فضل الرحمن باقیؔ غازی پوری، مولانا داود رازؔ دہلوی، مولانا محمد ظہیر مبارک پوری وغیرہم جیسے اکابرِ علم مستفید ہوئے۔ مدرسے کے انتظام و انصرام کی ذمے داری مولانا تلطف حسین کے سپرد تھی۔ ناظمِ مطبخ بھی وہی تھے۔ یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ مولانا بیک وقت اپنے استادِ گرامی سیّد نذیر حسین دہلوی کے مدرسے کے بھی ناظم و نگراں تھے۔ مولانا میں انتظامی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اس کے ساتھ گاہے گاہے وہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ان کے مخصوص تعلیمی نظریات تھے جو فنِ تعلیم و تربیت سے ان کی غیر معمولی وابستگی اور دل چسپی کا مظہر ہیں ۔ مولانا اپنے اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ طلبا بھی پابند رہیں ۔ خلاف ورزی پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ مزاج کی اسی سختی کی وجہ سے وہ ’’مولوی کلکٹر‘‘ کی عرفیت سے مشہور ہو گئے تھے۔اس عرفیت میں جہاں ان کے مزاج کی سختی کا عکس نمایاں ہے وہیں ان کے لیے عزت و تکریم بھی ہے۔ مولانا قاری احمد سعید بنارسی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :