کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 38
وہاں لے گئی۔ آج اگر بنارس، بھارت میں اہلِ حدیث کا عظیم الشان مرکز ہے تو اس کی بنیادی وجہ مولانا سعید اور ان کے فرزندان ہیں ۔ رحمۃ اللّٰه علیھم۔ آخر الذکر مولانا عبد السلام نے ۱۶ برس صادق پور (پٹنہ) میں مولانا محمد یعقوب بن حکیم ارادت حسین صادق پوری کے درِ دولت پر درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ یہیں انھوں نے اپنی مایۂ ناز تصنیف ’’سیرۃ البخاری‘‘ لکھی۔ آرہ ہی میں مولانا ابراہیم نے ’’مطبع خلیلی‘‘ قائم کیا، جس کا انتظام مولانا کے بھائی مولانا ادریس سنبھالتے تھے۔ اس مطبع سے دین کی بڑی خدمت ہوئی اور حدیث کی نادر کتابوں کی اولین طباعت یہاں سے انجام پائی۔ عظیم آباد (پٹنہ) اور نالندہ میں متعدد بستیاں تھیں جو دعوتِ کتاب وسنت کا مرکز بنی ہوئیں تھیں ، جن میں سب سے نمایاں ڈیانواں تھا جو علامہ شمس الحق اور ان کے خانوادے کا مسکن تھا۔ علامہ عظیم آبادی صاحبِ ثروت و دولت تھے۔ انھوں نے اپنی دولت کو دین کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنایا اور علماء کی ایک بڑی تعداد یہاں جمع کر لی، جنھوں نے تدریس و تصنیف کے ذریعے غیر معمولی دینی خدمات انجام دیں ۔ علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری، مولانا عبد الرحمن مبارک پوری صاحب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘، مولانا عبدالسلام مبارک پوری، مولانا نور محمد اعظم گڑھی وغیرہم مختلف ادوار میں ڈیانواں سے منسلک رہے۔ حافظ صاحب غازی پوری نے یہاں ایک برس تدریس کے فرائض انجام دیے۔ صاحبِ تحفہ یہاں سات برس مقیم رہے، ’’ابکار المنن‘‘ جیسی علمی کتاب یہیں بیٹھ کر لکھی۔ خود علامہ شمس الحق کی تصنیفات علومِ اسلامی کا گراں قدر سرمایہ ہیں جن سے آج طلابِ حدیث کی ایک بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے۔ شکرانواں میں مولانا رفیع الدین کی علم پروری نے اس کوردہ دیہات کو علوم و فنون کا مخزن بنا دیا تھا۔ یہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی کتابوں کا ایسا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا جس کی مثال پورے ہندوستان میں نہیں مل سکتی تھی۔ اس دیہات سے ’’سنن ابی داود‘‘، ’’ذم التاویل‘‘، ’’تائید مذہب السلف‘‘ جیسی کتابیں طبع ہوئیں ۔یہ سب مولانا ہی کی سعی کا فیض تھا۔ بازید پور میں مولانا حافظ عبد اللہ بازید پوری نے اپنے ذاتی خرچ سے ایک مدرسہ قائم کیا۔