کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 378
ہے، جس کی اہمیت کا ادراک کم ہی کیا گیا ہے، جب کہ اس کے بغیر ہندوستانی علمائے اہلِ حدیث کی خدمتِ حدیث کی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔
یہاں اس امر کا اظہار بھی مناسب ہے کہ مختلف مطابع کے مالکان بعض دفعہ اپنی مرضی سے پرانی کتابوں کو طبع کرتے تھے اور اس کی تجارت کرتے تھے۔ بعض دفعہ اپنے معاصر مصنّفین سے کتابیں لکھواتے اور انھیں اس کا معاوضہ دیتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ مصنّفین یا ان کے متعلقین کتابوں کی طباعت کرواتے اور طباعت کے تمام مصارف اپنی گرہ سے ادا کرتے۔ اس کی علامت کے طور پر اس زمانے میں عربی کتابوں میں سر ورق پر ’’امر طبع‘‘ اور اردو و فارسی کتابوں کے سر ورق پر ’’حسبِ فرمائش‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ناشر کا نام درج ہوتا تھا۔ آج بیشتر قاری اس حقیقت سے ناواقف ہوں گے، اس لیے اس کا اظہار ضروری خیال کیا گیا۔ اس سے اس دور کے نشر و طبع کے اصول و رجحانات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
مولانا نے بلاشبہہ متعدد کتب طبع کیں ، جن کا استقصا بھی اب ممکن نہیں ۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں مولانا نے دینی علوم کی اشاعت کی۔ ذیل میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایسی کتب کا تعارف کروایا جائے جو مولانا تلطف حسین کی سعی سے طبع ہوئیں ، جس کی طباعت کے لیے انھوں نے اپنا صرفِ زر لگایا یا پھر کسی بھی نوع کا حصہ لیا:
٭ ’’التلخیص الحبیر‘‘: امام حافظ ابن حجر العسقلانی (م ۸۵۲ھ) کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر‘‘ فقہی احادیث کی تحقیق و تخریج کا عمدہ مجموعہ ہے جس میں ہر باب کی احادیث کو سلیقے سے جمع کیا گیا ہے۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے اس کی طباعت کا عزم کیا اور انھیں کے ایماء پر مطبع انصاری سے ۱۳۰۷ھ میں اس کی طباعت ہوئی۔[1] مولانا تلطف حسین عظیم آبادی نے متن کی تصحیح کا ذمہ لیا اور نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کی تصحیح کے فرائض انجام دیے۔ خوش قسمتی سے انھیں کتاب کے تین قیمتی نسخے حاصل ہوئے، جن کی تفصیل وہ خود ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
’’بعونہ تعالیٰ واسطے تصحیح کے تین نسخے ملے۔ ایک جناب مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی کا
[1] التلخیص الحبیر (ص: ۴۱۶)