کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 377
’’تلطف حسین تحریکِ اہلِ حدیث کے متحرک اراکین میں سے ایک تھے۔ انھوں نے اہلِ حدیث لٹریچر کی اشاعت کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے۔ سب سے پہلے انھوں نے فروختِ کتب کا ایک مرکز دہلی میں قائم کیا، جہاں عموماً اہلِ حدیث راہ نماؤں کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں ۔ اس کے بعد انھوں نے دہلی میں انصاری پرنٹنگ پریس (مطبع انصاری) قائم کیا، جہاں اہلِ حدیث علماء کی کتابیں طبع ہوتی تھیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ایک مدرسہ ریاض العلوم بھی قائم کیا۔‘‘
کتابوں کی نشر و اشاعت:
مولانا نے دینی علوم کی نشر و اشاعت کے لیے اسلافِ کرام کے انتہائی قیمتی ذخیرے کو منصہ شہود پر پیش کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں قدیم امہاتِ کتب کو تلاش کرتے، اس کی تحقیق اور تصحیح کرتے یا کرواتے اور پھر اسے پوری صحت کے ساتھ طبع کرتے۔ یہ اس عہد کے اعتبار سے ایسی غیر معمولی خدمت تھی جس کا اندازہ لگانے سے آج اذہان قاصر ہیں ۔
مولانا اصلاً تاجر کتب تھے، پھر ناشرِ کتب بنے۔ کتبِ حدیث کو جس سلیقے اور محنت کے ساتھ مولانا منظرِ شہود پر لائے، وہ ان کی زندگی کا عظیم کارنامہ ہے۔ ابتداءً وہ اپنی تیار کردہ کتب سیّد محمد معظم دہلوی کے مطبع فاروقی سے طبع کرواتے۔ پھر مولانا نے اپنے رفیقِ خاص مولانا عبد المجید میرٹھی ثم دہلوی کے ساتھ مل کر محلہ سوئی والان دہلی میں ’’مطبع انصاری‘‘ قائم کیا، جو آگے چل کر کتبِ حدیث کی نشر و اشاعت کا عظیم مرکز بن گیا۔ اس مطبع کے اصل مالک تو مولانا عبد المجید تھے لیکن اس میں مولانا تلطف حسین کی شراکت بھی تھی، اس شراکت کی نوعیت کیا تھی؟ اس کی وضاحت پیش کرنے سے سرِ دست ہم قاصر ہیں ۔ مطبع انصاری سے جو کتابیں شائع کی جاتی تھیں وہ بڑی تحقیق اور حروف خوانی کے بعد کی جاتیں ۔ متن کی تصحیح پر خاص توجہ کی جاتی۔ بہترین کاتب اس کی کتابت کرتے اور کبار علما تصحیح کے فرائض انجام دیتے تھے۔
مطبع انصاری سے کتبِ حدیث کا جو قیمتی ذخیرہ منصہ شہود پر آیا، اس میں مولانا تلطف حسین کی مساعیِ حسنہ کا بڑا دخل ہے۔ چند برسوں میں اسلاف کرام کا بہت بڑا ذخیرہ، جو محض منتشر اور غیر مطبوع تھا، مولانا کی بدولت مرحلہ طباعت سے گزرا۔ خدمتِ حدیث کے حوالے سے یہ ایک انتہائی اہم گوشہ