کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 375
سے دسواں حصہ بھی نہ ہو گا۔ میری رائے کے مطابق الٰہ آباد کے معاملہ میں سوائے مولوی صاحب کے دوسرا شخص اس ہمت کا دکھائی نہیں دیتا، جلد تدبیر کر کے ان کے لیے روپیہ مہیا کریں ، تاکہ مولوی صاحب ممدوح کو میں روانہ کروں ۔‘‘[1]
افسوس اس عہد کے اخبارات بہ آسانی دستیاب نہیں ، ورنہ مولانا کی دینی خدمت کے اس اہم پہلو کا بھرپور مرقع تیار ہو سکتا ہے۔
تبحرِ علمی:
٭ مولانا کی تبحرِ علمی، وسعت نظری اور اعلیٰ صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ ان کے ایک استادِ گرامی شیخ حسین بن محسن یمانی انھیں ان القاب کے ساتھ ملقب فرماتے ہیں :
’’محبنا العلامۃ المتشرف بزیارۃ الحرمین و خادم سنۃ رسول الثقلین المولوي تلطف حسین‘‘[2]
٭ مولانا حافظ شاہ نعیم عطا الکریمی لکھتے ہیں :
’’الفاضل الوحید في زمانہ الفرید في أقرانہ الفائز من الحسنیین المولوي تلطف حسین العظیم آبادي حفظہ الرب الھادي‘‘[3]
٭ مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ’’عون المعبود‘‘ پر اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں :
’’و أن یشکروا مؤلفہ و العلامۃ الفھامۃ الآخذ من کل فن بأوفر نصیب الرامي للمعالی بکل سھم مصیب ذو الکمالات الشریفۃ الذي صرف ھمتہ و أنفق مالہ في إشاعۃ الکتاب و السنۃ طالب الحسنیین مولانا المکرم تلطف حسین فإنہ ھو الذي تکفل مثل ھذہ الأمور‘‘[4]
٭ شیخ حسین یمانی کے صاحبزادے شیخ محمد لکھتے ہیں :
[1] مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۱۰۷)
[2] عون المعبود (۴/۵۵۵)
[3] عون المعبود (۴/۵۵۶)
[4] عون المعبود ( ۴/۵۵۹)