کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 374
ہوئے اہلِ حدیث کی طرف سے اس کی پیروی کے لیے مولانا تلطف حسین ہی جایا کرتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مولانا کی وفات پر جو مختصر سا تعزیتی شذرہ لکھا، اس میں بھی یہی ذکر کیا ہے: ’’شروع زمانہ اشاعتِ توحید و سنت میں بہت سے مقدمات میں آپ نے دخیل ہو کر اہلِ حدیث قوم کو فائدہ پہنچایا۔‘‘[1] ’’مکاتیبِ نذیریہ‘‘ میں شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کے ایک مکتوبِ گرامی سے اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب اپنے اس تلمیذِ رشید کے کس درجہ قدر شناس تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب الٰہ آباد میں اہلِ حدیث اور اہلِ تقلید کے مابین اختلافی مسائل پر عدالت میں مقدمہ دائر تھا۔ ان مسائل کو جو محض فروعی نوعیت کے تھے، جواز بنا کر اہلِ حدیث کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا، انھیں مساجد میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا تھا اور سماجی سطح پر ان کا مقاطعہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مولانا سید نذیر حسین اپنے ایک تلمیذِ رشید مولانا محمد سعید بنارسی کے نام لکھتے ہیں : ’’نقولات میں زرِ کثیر درکار ہے ورنہ عملگان کچہری کچھ توجہ نہیں کرتے ہیں ، خصوصاً آمین بالجہر و رفع یدین میں (کیونکہ سارے کا سارا مسلمان عملہ مخالف ہے) مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ بنارس کا مقدمہ اہم مشکلات سے معلوم کریں ۔ اگر الٰہ آباد میں کامیابی نہ ہوئی تو وہاں کے مخالفین اور دہلی والے سب دلیر اور مانع مسائل مذکورہ سے ہوں گے۔ اگر جستجو و دوڑ دھوپ قرار واقعی منظور ہو تو تنخواہ مولوی تلطف حسین کی مبلغ پچاس روپیہ علاوہ خرچ سفر کے جمع کریں ، تاکہ مشار الیہ کو انجام میں اس کے روانہ کروں ، کیونکہ ممدوح الیہ تین چار سال سے مقدمہ دہلی اور گورگانواں و نصیرآباد و میرٹھ میں وہ حیران و پریشان رہے اور پیروی بنارس کے مقدمہ کی الہ آباد میں سوائے ممدوح الیہ کے کوئی کر نہیں سکتا ہے، اور اس وعدہ پر ان کا جانا کہ جو کچھ خرچ چاہیں لیں ، قابلِ گفت و شنید کے نہ ہو گا، جب تک تعیین تنخواہ کی موحدین سے مقرر نہ کرائیں ان کا جانا مشکل ہے مولوی صاحب ہر جگہ مقدمات مرجوعہ میں کوشش جان توڑ سخن سازی عمل میں لائے ہیں کہ دوسرے شخص
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۱ فروری ۱۹۱۶ء