کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 373
سے بڑھ کر کیا ظلم ہو گا۔ ہم لوگ انگریزوں کی عملداری میں آزادی کے ساتھ اپنے شعارِ مذہبی ادا کرتے ہیں ۔ جمعہ و جماعت سے روکے نہیں جاتے۔ اپنے خیال و اعتقاد میں خود مختار و آزاد ہیں ۔ یہاں مسلمانوں کی عملداری میں حرمِ محترم کے طواف اور جمعہ و جماعت سے بند ہیں ۔ پھر ہم کیونکر نہ کہیں کہ اس آزادی کی نظر سے عیسائیوں کی عملداری مسلمانوں کی عملداری سے بہتر ہے۔‘‘
شدتِ جذبات کے اس اظہار پر بعض حواشی پاشا ( وزرا و افسران) کو غصہ آگیا اور وہ کہنے لگے کہ پاشا کے سامنے ایسی گستاخی؟ لیکن پاشا نے بربنائے انصاف تواضعاً کہا کہ انھیں کچھ نہ کہو، یہ مظلوم ہیں ، انھیں کیونکر جوش نہ آئے جب کہ انھیں اور ان کے شیخ کو ناحق تہمتیں تراش کر کافر بنایا گیا۔ پھر پاشا نے مولانا سے کہا: ’’آپ ناراض نہ ہوں ، ہم نے کسی طرح آپ کی بے تعظیمی نہیں کی، اپنے خاص محلِ اقامت میں جگہ دی ہے اور یہ باز پرس بھی آپ ہی کے (ساڑھے تین سو) ہم وطنوں کی مخبری کی وجہ سے کی گئی ہے۔ ‘‘
اس کے بعد پاشا نے سید نذیر حسین محدث دہلوی کو بلایا۔ ان کا اکرام کیا اور انھیں خاص اپنے ہاتھوں سے قہوہ پلایا۔ اس کے بعد گورنرِ مدینہ کے نام خط لکھ کر دیا کہ یہ افراد معزز اور لائقِ تکریم ہیں اور ان کے خلاف ان کے ہم وطن جو شورش بپا کرتے ہیں وہ محض فریب ہے، لہٰذا انھیں کسی قسم کی تکلیف و اذیت نہ دی جائے۔[1]
مقدمات کی پیروی:
مولانا تلطف حسین اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ پاشا مکہ کے سامنے انھوں نے جس دلیری کے ساتھ حکمت و دانش کا مظاہرہ کیا، اس سے ان کی دانائی اور فہم و بصیرت کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ہندوستان میں اہلِ حدیث اور اہلِ تقلید کے مابین جہاں جہاں بڑے بڑے مقدمات قائم
[1] مولانا سید نذیر حسین اور ان کے تلمیذِ رشید مولانا تلطف حسین کے سفرِ حج کی یہ رودادیں اسی زمانے میں ہندوستانی اخباروں میں شائع ہونا شروع ہو گئی تھیں ۔ تاہم سب سے زیادہ تفصیلی اور معتبر روداد مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ (جلد: ۶، شمارہ نمبر ۱۰، ۱۱) ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ و محرم ۱۳۰۱ھ بمطابق اکتوبر و نومبر ۱۸۸۳ء میں طبع کی تھی۔ اسی سے ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں نقل کیا گیا۔ ہم نے اس مقام پر براہِ راست ’’اشاعۃ السنۃ ‘‘ ہی کو اپنے پیشِ نگاہ رکھا ہے۔