کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 372
کو کیا جانتے ہیں ؟ پاشا: لوگ وہابی کہتے ہیں ؟ مولانا: وہابی قرآ ن کو نہیں مانتے۔ پاشا: نہیں ، قرآن کو تو وہ مانتے ہیں ۔ مولانا: بڑا فسوس ہے کہ آپ ہمارے شیخ کو وہابی جانتے ہیں اور وہابیوں کا قرآن کو ماننا بھی تسلیم کرتے ہیں ، پھر جن چیزوں (خالہ کا نکاح اور خنزیر) کی حرمت نصِ قرآن میں پائی جاتی ہے، اس کے حلال جاننے کو آپ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ پاشا: (ذرا متعجب ہو کر ) خالہ پھوپھی کی حرمت قرآن میں کہاں ہے؟ مولانا: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ } [النساء: ۲۳] ’’حرام کی گئیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں ۔‘‘ یہ آیت سن کر پاشا صاحب ساکت و ششدر ہو گئے۔ مولانا اپنی فتح مندی کے احساس سے دلیر ہو کر جلال میں آگئے اور بآوازِ بلند کہنے لگے: ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ اس حرم محترم میں جو ما منِ خلائق ہے، یہ تکلیفیں پائیں اور ایذائیں اٹھائیں اور اصل وہابی نجد وغیرہ کے جو اپنی وہابیت کے مدعی ہیں ، بے روک ٹوک حج کر کے چلے جائیں ، ان سے کسی قسم کا تعرض نہ ہو۔ ان کے سوا اور مذاہبِ شیعہ، خارجی وغیرہ کے لوگ بھی ہمیشہ حج کو آتے ہیں اور کسی سے ان کا خیال یا اعتقاد جس کے وہ مدعی ہیں اور وہ اہلِ سنت و الجماعت کے صریح مخالف ہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ اور ہم سے جو اصولاً و فروعاً اہلِ سنت ہونے کے مدعی ہیں ، یہ دار و گیر ہو رہی ہے اور طرفہ یہ ہے کہ عین حرم محترم میں محرماتِ قطعیہ اتفاقیہ کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ (جیسے آبِ زمزم کا عین مسجد الحرام میں بیع کرنا وغیرہ) ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا اور ہم سے باوجود عدمِ صدور کسی جرمِ شرعی کے صرف تہمتوں کے سبب یہ مواخذہ ہو رہا ہے۔ اس