کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 370
مولانا محمد حسین بٹالوی نے سب سے پہلے اس سفر کی صحیح روداد اپنے رسالہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ میں شائع کی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر ان کا قلم بے اختیار مولانا تلطف حسین کو مخاطب کر کے لکھتا ہے: ’’ مرحبا میرے پیارے دوست مرحبا۔ حقِ تلمذ یہی تھا جو آپ نے ادا کیا۔ جناب ممدوح تو آپ کے اور ہمارے بلکہ لاکھوں اہلِ اسلام کے استاذ اور روحانی باپ ہیں ، ایسی حالت میں تو دوست دوست سے جدا نہیں ہوتا، چنانچہ کسی صادق دوست نے کہا ہے: پائے در زنجیر پیشِ دوستان بہ کہ بابیگانگان در بوستان‘‘[1] اس کے بعد وہ تمام افراد، جنھیں غلطی سے گرفتار کیا گیا تھا رہا کر دیے گئے اور مولانا سید نذیر حسین اور ان کے وفادار تلمیذِ رشید مولانا تلطف حسین نے اسی دیوان میں وہ شب اور ۲۴ ذی الحجہ کا پورا دن بسر کیا۔ اس روز اس فہرست کے باقی ماندہ افراد اور دیگر افراد سے بھی، جن کی مخبری کی گئی تھی، سوالات و جوابات کی نشستیں ہوئیں ۔ ۲۵ ذی الحجہ کو سید نذیر حسین دہلوی کو پاشا نے بلایا اور ان سے سوالات کیے۔ جن کے مولانا ممدوح نے بڑے شافی جوابات دیے۔ پاشا مولانا نذیر حسین کے علم و فضل سے متاثر ہوا اور اسے بخوبی اندازہ ہوا کہ مخبروں کی نیت درست نہیں اور وہ ایک عالم باعمل پر تہمت تراش رہے ہیں ۔ میاں صاحب سے سوال و جواب کے بعد پاشا نے مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کو بلوایا اور ان سے سوال و جواب کی جو نشست ہوئی، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: پاشا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ مولانا: تلطف حسین: نواحِ عظیم آباد پٹنہ کے۔ پاشا: مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب کے پاس کب سے ہو؟ مولانا: عرصہ چھے سال سے۔ پاشا: تمھارا بھی وہی مذہب ہے جو ان کا ہے؟ مولانا: ہاں صاحب وہی مذہب ہے۔ پاشا: تمھارے شیخ (استاذ) کی تالیف کو ن کون سی کتاب ہے؟
[1] اشاعۃ السنۃ جلد ۶، شمارہ نمبر ۱۰، ۱۱۔ ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ و محرم ۱۳۰۱ھ بمطابق اکتوبر و نومبر ۱۸۸۳ء ’’پاؤں میں بیڑی پہن کر دوستوں کے سامنے رہنا بیگانوں کے ساتھ باغ میں رہنے سے بہتر ہے۔‘‘