کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 37
ہوا تھا اور وہ پٹنہ ہی کا حصہ تھا) سے ہے، جن کی تعداد ۸۴ ہے۔ اسی طرح جن خانوادوں کے متعدد اراکین کی نمایاں تعداد نے میاں صاحب سے استفادہ کیا، اس میں بھی بہار اور پنجاب کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بہار میں ڈیانواں ، مہدانواں ، پھلواری، شکرانواں ، جھمکا اور رحیم آباد وغیرہا کے علمی خاندانوں کے ایک سے زائد اراکین نے حضرت میاں صاحب سے اکتسابِ علم کیا۔ ایک دل چسپ اتفاق یہ بھی رہا کہ بہار میں حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے بیشتر کبار تلامذہ کا نسبی تعلق خلیفہ بلا فصل امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، مثلاً: علامہ شمس الحق ڈیانوی دیگر علمائے ڈیانواں ، مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی، علامہ عبد العزیز رحیم آبادی و دیگر علمائے رحیم آباد، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی، مولانا رفیع الدین شکرانوی، مولانا حافظ عبد اللہ بازید پوری وغیرہم نسباً دودمانِ صدیقی کے فرزند تھے۔ آرہ میں مولانا ابراہیم آروی نے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ قائم کیا جو اپنے عہد کی عظیم الشان دینی درس گاہ تھی، جس کی وجہ سے کبار اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد یہاں مجتمع ہو گئی تھی۔ حضرت حافظ عبد اللہ غازی پوری نے ۲۰ برس یہاں صدر المدرسین کے فرائض انجام دیے، حتیٰ کہ اس عہد میں ’’آروی‘‘ ان کی صفتِ نسبتی بن گئی۔ خود انھوں نے بھی یہاں کی مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اپنی ایک صاحبزادی سیوان (بہار) کے ایک نامور انصاری گھرانے میں بیاہی۔ بہار کے مشہور کانگریسی لیڈر عبد القیوم انصاری، حافظ عبداللہ غازی پوری کے نواسے تھے۔ مگر اس سکونت پذیری کے باوجود وفات سے چند برس پیشتر مولانا کو تقدیرِ الٰہی نے دوبارہ اتر پردیش جا پہنچایا، وگرنہ شاید آج ان کا تذکرہ علمائے بہار کے ذیل میں ہوتا۔ ایسا ہی دل چسپ اتفاق مولانا سعید بنارسی اور مولانا عبد السلام مبارک پوری کے ساتھ بھی رہا۔ اوّل الذکر گجرات (پنجاب) کے ایک سکھ گھرانے کے رکن تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد دینی علوم کی تحصیل کی اور اس سے فراغت کے بعد انھوں نے پہلے پہل آرہ ہی کو اپنی جہود و مساعی کا مرکز بنایا۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ میں مدرس رہے، مگر بانی مدرسہ سے چند اختلافات کے باعث آرہ کی سکونت ترک کرکے بنارس میں جا مقیم ہوئے۔ بزرگوں کے اختلافات میں حکمتِ الٰہی کے کئی گوشے مستور ہوتے ہیں ۔ مولانا سعید بنارس کیا گئے، بنارس میں مرکز اہلِ حدیث کی تخم ریزی کے لیے تقدیرِ الٰہی انھیں