کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 369
لیا، بقیہ دو افراد کو ڈھونڈنے میں قدرے تاخیر ہوئی۔ نائب کونسل جدہ عبد الرزاق کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنے وکیل کے ہمراہ بذاتِ خود حرم پہنچا۔ اس کا وکیل محمد یوسف کئی بار پاشا سے ملا۔ سوال و جواب ہوئے۔ آخر پاشا کی طرف سے یہ جواب لایا: ’’ہم نے ان کو حفاظت کے لیے اور مصلحتاً و احتیاطاً پاس رکھنا چاہا ہے۔ اس وقت ہم ان کو بلا تحقیقات چھوڑ دیں گے تو ہم کو کشت و خون ہو جانے کا خوف ہے، ان کے صدہا مخالف جو اس وقت جوش میں ہیں ، ان کو جیتا نہ چھوڑیں گے۔‘‘[1] یہ سن کر نائب کونسل اور اس کے وکیل نے مایوس ہوکر مولانا نذیر حسین سے کہہ دیا کہ یہاں کسی آئین و قانون کی پاسداری نہیں ۔ ہم اس سے زیادہ پاشا کو کچھ نہیں کہہ سکتے، لہٰذا آپ عدالت میں پیش ہو جائیں ۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی راہ لی اور صورتِ واقعہ کی اطلاع جدہ میں مقیم افسرِ اعلیٰ کو کر دی۔ مولانا سیّد نذیر حسین اپنے پانچ ہمراہیوں کے ساتھ دیوان میں پہنچے اور رات بھر اسی دیوان کے ایک کمرے میں محبوس رہے۔ دوسرے دن جمعۃ المبارک تھا۔ مولانا ممدوح اور ان کے رفقا کا جمعہ و طواف سب فوت ہوا۔ اسی دن شیخ الہنود (ہندوستانیوں کے نمبردار) شیخ محمد حسین کی تحریک سے یہ افراد مقدمے کی تحقیقات کے لیے پیش ہوئے۔ جب ان کے نام دریافت کیے گئے تو پتا چلا کہ مولانا سیّد نذیر حسین کے سوا اس فہرست کا ایک آدمی بھی نہیں جس کا وارنٹ گرفتاری نکالا گیا تھا۔ تب پاشا مکہ کی آنکھیں کھلیں اور اسے اپنے افسران کی فاش غلطی نظر آئی۔ پاشا نے ان پانچ افراد سے معافی مانگی اور انھیں رہا کر دیا، مگر اس وقت مولانا نذیر حسین کے رفیقِ خاص اور شاگردِ رشید مولانا تلطف حسین نے یہ رخصت قبول نہ کی اور صاف لفظوں میں کہہ دیا: ’’مجھے یہاں سے جانا منظور نہیں ہے، جب تک کہ میرے شیخ (استاذ) کو یہاں سے رخصت نہ ملے۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ میرا ان کا خیال و مقال و مذہب و مشرب بھی ایک ہے۔ میں اس وجہ سے بھی ان سے جدا ہونا نہیں چاہتا۔‘‘[2]
[1] ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ جلد ۶، شمارہ نمبر ۱۰، ۱۱۔ ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ و محرم ۱۳۰۱ھ بمطابق اکتوبر و نومبر ۱۸۸۳ء [2] اشاعۃ السنۃ جلد ۶، شمارہ نمبر ۱۰، ۱۱۔ ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ و محرم ۱۳۰۱ھ بمطابق اکتوبر و نومبر ۱۸۸۳ء