کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 368
شخص موجود نہ تھا۔ سپاہیوں نے صرف مولانا نذیر حسین کا نام دریافت کیا اور بقیہ تعداد کو حاضرین سے پورا کر لیا۔ چنانچہ جو بقیہ افراد اس وقت موجود تھے اور گرفتار ہوئے ان کے اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں : مولانا تلطف حسین، محمد احمد، حفیظ اللہ، خدا بخش اور سیّد احمد۔ تلاشی کے وقت چند رسائل مناسکِ حج برآمد ہوئے۔ ان اسباب کے ساتھ جملہ افراد کو پاشا کی کچہری (دیوان) میں پیش کر دیا گیا۔ مکہ مکرمہ میں برٹش کونسل مقیم جدہ کا نائب عبد الرزاق نامی ایک مسلمان عہدے دار تھا۔ مولانا سیّد نذیر حسین مکہ مکرمہ پہنچتے ہی اس سے مل چکے تھے اور ہندوستانی افسران کے خطوط اسے پیش کر چکے تھے۔ نیز اسے اس امر سے بھی آگاہ کر چکے تھے کہ مخالفین ان کے درپے آزار ہیں ۔ جواباً اس نے یہ تسلی دی کہ آپ حضرات بلا خوف اپنے مذہبی شعائر انجام دیں اور اگر بادل نخواستہ کہیں حکام کی جانب سے باز پرس کی نوبت آئے تو آپ بلا توقف پاشا کے پاس حاضر ہو جائیں اور قطعاً مزاحمت نہ کریں اور اپنے حال سے مجھے مطلع کریں ۔ عبد الرزاق کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے اپنے وکیل (یا مترجم) محمد یوسف کو پاشا مکہ کے پاس بھیجا اور یہ دریافت کیا کہ انھوں نے برٹش گورنمنٹ کی رعایا کو کیوں حبسِ بے جا میں رکھا ہے؟ پاشا نے جواب دیا کہ ان لوگوں پر فلاں فلاں اعتراضات ہیں (جن کا ذکر گلابی چو ورقہ کے حوالے سے گزر چکا ہے)۔ وکیل نائب کونسل نے کہا کہ جن امور کی یہ شکایت کی گئی ہے، یہ افراد ان حدود میں اس کے مرتکب نہیں ہوئے، لہٰذا ان امور کے سبب ان کا مواخذہ غیر مناسب ہے۔ فنی اعتبار سے یہ جواب نہایت وزنی تھا، پاشا مکہ نے بھی اسے تسلیم کیا اور تمام افراد کو رخصت کر دیا۔ اس پورے قضیے میں ایک گھنٹا صرف ہوا۔ لیکن یہ امر مخالفین پر بڑا شاق گزرا، انھیں اس میں اپنی ذلت اور ناکامی محسوس ہوئی۔ انھوں نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر بہت سے لوگوں کی شہادت (جن کی تعداد پاشا کے بیان کے مطابق ساڑھے تین سو تک تھی) پیش کر کے مولانا سیّد نذیر حسین اور ان کے انھیں مذکورہ ہمراہیوں کے ساتھ دوبارہ عدالت میں طلب کرایا۔ ایک افسر اور ایک سپاہی ان افراد کی طلبی کے لیے حاضر ہوئے۔ انھوں نے بھی کسی سے نام دریافت نہیں کیا اور چار آدمی جو اس وقت موجود تھے، انھیں ساتھ