کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 362
کی مخالفت کی۔ ان ہی میں ایک صاحبِ علم بابو الٰہی بخش بھی تھے۔ جو مولانا عبد اللہ غزنوی کے تربیت یافتہ تھے۔ ایک زمانے میں مرزا قادیانی کے ساتھ تھے، لیکن حقیقتِ حال منکشف ہوئی تو اس کے رد میں بہت زیادہ ساعی ہو گئے۔ بابو الٰہی بخش نے ایک کتاب ’’عصائے موسیٰ‘‘ بھی لکھی۔ بابو الٰہی بخش کی وفات اپریل ۱۹۰۷ء میں ہوئی۔[1] مرزائی لٹریچر پر اطلاع رکھنے والے احباب بابو الٰہی بخش اور ’’عصائے موسیٰ‘‘ سے بخوبی واقف ہیں ، لیکن مولانا محمد مستقیم سلفی،[2] ملک عبد الرشید عراقی[3] اور محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم[4] نے بابو الٰہی بخش کو مولانا الٰہی بخش بڑاکری سمجھ لیا اور ’’عصائے موسیٰ‘‘ کو ان کی تصنیف قرار دے دیا۔’’عصائے موسیٰ‘‘ ۲۰۱۵ء میں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت (ملتان) کے کتابی سلسلہ’’محاسبۂ قادیانیت‘‘ کی پہلی جلد میں بھی شائع ہوئی ہے۔ اولاد: مولانا کے دو صاحبزادوں کا علم ہو سکا ہے۔ ایک یعقوب حسن خاں جن کے لیے مولانا نے ’’زجر المعاصی‘‘ لکھی تھی۔ دوسرے مولانا حکیم یوسف حسن خاں سوری، بہار کے معروف عالم و طبیب تھے۔ مولانا یوسف حسن ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ تکمیلِ علم مولانا ابو المحاسن سجاد سے کیا۔ رجحانِ خاطر تصوف کی جانب تھا۔ ۱۶ فروری ۱۹۸۱ء میں وفات پائی۔[5] مولانا محمد طاہر بہاری کا تعزیتی شذرہ: مولانا الٰہی بخش کی وفات پر ان کے تلمیذِ رشید مولانا ابو طاہر بہاری کے فرزند مولانا محمد طاہر نے مختصر سا تعزیتی شذرہ تحریر کیا تھا جس میں مولانا کی مجموعی خدمات اور ان کے محاسنِ اعمال کو بیان کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں :
[1] بابو الٰہی بخش کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو ’’ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء، محاسبۂ قادیانیت (۱/ ۴۔۸) [2] جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات (ص: ۷۳۹) [3] ادیانِ باطلہ کی تردید میں علمائے اہلِ حدیث کی علمی خدمات (ص: ۵۰) [4] عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ میں علمائے اہلِ حدیث کی مثالی خدمات (ص: ۸۴) [5] مولانا حکیم یوسف حسن خاں سوری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: تاریخ اطبائے بہار (۲/ ۲۳۳۔۲۳۸)، تذکرہ علمائے بہار (۱/ ۴۲۴، ۴۲۵)