کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 361
بھی، تعریف و توصیف میں قصائد بھی ہیں اور حسرت و افسوس کے اظہار میں مرثیے بھی۔[1]
’’شریعت کا درہ‘‘
’’مجالس محمدیہ‘‘
مولانا کی تصانیف و تراجم کا سلسلہ یقینا دراز ہے، مزید کتابیں بھی ان کے رشحۂ قلم سے نکلی ہوں گی، تاہم ہمیں ان کا سراغ نہ مل سکا۔
تلامذہ:
مولانا نے طویل تدریسی زندگی گزاری۔ ان کی خدمتِ تدریس کے نتیجے میں تلامذہ کی ایک بڑی جماعت مستفید ہوئی، جن میں ہمیں حسبِ ذیل تلامذہ کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہو سکی:
٭ مولانا ابو الحسنات عبد الغفور فارغؔ داناپوری۔
٭ مولانا مولابخش بڑاکری بہاری (برادرِ اصغر)۔
٭ مولانا ابو طاہر بہاری۔
٭ مولانا حکیم یوسف حسن خاں سوری (صاحبزادہ)۔
٭ مولانا محمد ابراہیم دانا پوری۔
٭ مولانا محمد سعید خاں دانا پوری۔
٭ مولانا عبد الواحد خاں رام پوری۔
٭ مولانا عبد المجید خاں رئیس گلتی بہار۔
شاعری:
مولانا کبھی کبھار شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ زیادہ تر فارسی اور عربی میں فکرِ سخن کرتے۔ فارسی میں ارماں ؔ تخلص فرماتے۔
ایک تصحیح:
مولانا الٰہی بخش ہی کے عہد میں پنجاب سے مرزا قادیانی کا فتنہ شروع ہوا۔ مختلف علماء نے اس
[1] عربی زبان و ادب میں علمائے بہار کا حصہ (مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی)