کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 357
حل کر کے بتلاتے کہ آسان تر معلوم ہوتا۔ آپ نہایت حلیم و خلیق و کم سخن و متواضع تھے۔ اپنے دشمنوں سے بھی خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے اور حتی الامکان سلوک اچھا کرتے...علمِ اصول و حدیث میں خاص مہارت تھی۔ ماتحت احادیث تفریعاتِ فقہیہ و تطبیق و توفیق کے ساتھ پڑھانا معمول تھا۔ نہایت محققانہ کلام ہوتا۔ مقلدانہ تقریر سے سخت نفرت تھی۔ حق گو ایسے تھے کہ مسائلِ دینیہ میں کسی کا لحاظ نہ فرماتے اور صاف صاف جو بات آپ کے نزدیک حق و ثابت ہوتی بیان فرما دیتے۔ لومۃ لائم کا خوف یک دم نہ کرتے۔ خصوصاً اہلِ بہار کو آپ کی ذات با برکات سے بہت فیض پہنچا۔ اشاعتِ سنت و تردیدِ بدعت ہمیشہ کیا کرتے۔ بیس بار سے زائد صحاح ستہ کامل پڑھایا۔ ادب میں یہ کمال تھا کہ برجستہ عربی میں نظم و نثر لکھتے۔ مسودہ میں محو و اثبات نہ تھا، چنانچہ المکاتیب سے ظاہر ہے۔‘‘[1] حکیم اسرار الحق ’’تاریخ اطبائے بہار‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’مولانا الٰہی بخش خاں سوری بڑے جید عالم تھے۔ عربی و فارسی زبان و ادب میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ ان کا شمار اپنے وقت کے علمائے کبار میں تھا۔ حدیث، تفسیر، فقہ میں خاص مقام رکھتے تھے۔ تصنیف و تالیف کا خاص ذوق تھا۔ ان کی بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ وہ صاحبِ تصانیفِ کثیرہ تھے۔ حضرت مولانا شمس الحق ڈیانوی، شارح ابو داود، حضرت مولانا عبد اللہ غازی پوری، شمس العلماء مولانا سعادت حسین بہاری جیسے فضلائے روزگار کے ہمعصر تھے۔ مولانا الٰہی بخش خاں سوری فجر کی نماز میں بارگاہِ خداوندی میں سر بسجود تھے کہ ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘[2] علمائے صادق پور سے تعلق: مولانا الٰہی بخش کو علمائے صادق پور سے خصوصی ربط و تعلق تھا۔ تحریکِ جہاد کے خاموش کارکن
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء [2] تاریخ اطبائے بہار (۲/ ۲۳۳، ۲۳۴)