کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 356
پڑھیں ۔ کتبِ تفسیر و حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی میں شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین کے بابِ علم پر دستک دی۔ بقول امام خاں نوشہروی:
’’دہلی کے اس بارگاہِ علم و فضل میں علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی صاحبِ ’’عون المعبود‘‘ اور علامہ عبد العزیز رحیم آبادی جیسے اکابر کے رفیقِ درس رہے۔‘‘[1]
تکمیلِ علم کے بعد:
فراغتِ علم کے بعد اہلِ سنبھل پور (اڑیسہ) کی طلب پر سیّد نذیرحسین محدث دہلوی نے آپ کو روانہ فرمایا اور اہلِ سنبھل پور سے فرمایا: ’’ لائق و فائق مدرس کو آپ کے پاس روانہ کرتا ہوں ۔‘‘[2]
سنبھل پور میں ایک عرصے تک تدریس کی ذمے داریاں نبھائیں ۔ پھر دانا پور تشریف لائے جہاں چار برس قیام رہا، پھر اہلِ سنبھل پور کے وفورِ شوق سے مجبور ہو کر دوبارہ سنبھل پور کا رُخ کیا۔ بعدازاں شاہ مظہر حسین رئیسِ بہار کے صاحبزادے کی تعلیم و تربیت کے لیے بہار تشریف لائے اور یہیں کے ہوکر رہے۔
علم و فضل:
مولانا الٰہی بخش بڑاکری صاحبِ تصنیف و تدریس بزرگ تھے۔ علم و عمل کے جامع اور زہد و تقویٰ میں نمایاں تھے۔ محدث شمس الحق ڈیانوی نے مولانا الٰہی بخش کا شمار سیّد میاں نذیر حسین کے طبقۂ اولیٰ کے تلامذہ میں کیاہے۔[3]
مولانا الٰہی بخش کے ایک تلمیذِ رشید مولانا ابو طاہر بہاری اپنے عالی قدر استادِ گرامی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ کے جامع تھے۔ جس فن و علم کو بیان فرماتے، معلوم ہوتا کہ خاص اس فن کے ماہر و مجدد ہیں ۔ کتابیں اس قدر یاد تھیں کہ طلبا کو مقاماتِ مشکلہ بلا مطالعہ ایسا
[1] ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) جنوری ۱۹۴۸ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ اکتوبر ۹۱۹۱ء
[3] غایۃ المقصود (۱/ ۶۰)