کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 351
علی حسن گیلانی ثم مدھوپوری نے ’’النصرۃ الصمدیۃ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ مولانا نے یہ کتاب ۱۳۰۳ھ میں لکھی۔ اس کے پہلے حصے کی ایک طباعت مطبع احمدی پٹنہ سے ۱۳۱۰ھ میں ہوئی، جس میں اردو ترجمہ بھی ساتھ ہی درج ہے۔ یہ پہلا حصہ ۱۸۰ صفحات پر محیط ہے، جب کہ دوسراحصہ مع ترجمہ مطبع احمدی پٹنہ سے ۱۳۱۱ھ میں طبع ہوا۔ تعدادِ صفحات: ۲۱۴ ہے۔
کتاب پر کبار علمائے اصحاب الحدیث نے تقاریظ لکھیں اور اس کی تحسین کی۔ جن میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی، مولانا عبد الحکیم صادق پوری، مولانا عبد الصمد اوگانوی دانا پوری، مولانا انور حسین مونگیری، مولانا عبد الغفور رمضان پوری، مولانا ابو الحسنات عبد الغفور دانا پوری، مولانا مولا بخش بڑاکری وغیرہم شامل ہیں ۔
2 ’’منوّر الإیمان للرجال والنسوان‘‘: ۱۲۹۳ھ میں مولانا اپنے آبائی مسکن ہزارہ تشریف لے گئے۔وہاں ان سے چند افراد نے ا ٓٹھ سوالات پیش کر کے جوابات کی درخواست کی۔ مولانا نے اس کا قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کی روشنی میں جواب دیا ہے۔ مطبع انوار احمدی لکھنؤ سے ۱۲۹۶ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۳۲۔
3 ’’تحقیق المغاث في مسألۃ الطلاق‘‘: اس مختصر سے رسالے میں طلاقِ ثلاثہ دفعتاً کے واحد رجعی ہونے کا بیان ہے۔ اس کا رد مولانا محمد احسن گیلانی کے صاحبزادے اور مولانا عبد اللہ کے تلمیذِ رشید مولوی ابو النصر گیلانی نے ’’الغیاث من المغاث‘‘ کے نام سے لکھا۔ اس کا بھرپور جواب ’’مقدمۃ المغاث‘‘ کے نام سے مولانا علی حسن مدھو پوری نے دیا۔ ’’الغیاث‘‘ کا خلاصہ اور اس کی تائید مولانا عبد الوہاب سربہدوی بہاری نے ’’الاحقاق‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ ’’الاحقاق‘‘ کا جواب مولانا علی حسن مدھو پوری نے ’’اظہار الشقاق لمؤلف الإحقاق‘‘ اور مولانا ابو تراب عبد الرحمان گیلانی نے ’’تردید العموم ‘‘ کے عنوان سے دیا۔
درس و تدریس:
مولانا کا شغلِ تدریس ہمیشہ جاری رہا۔ تلامذہ میں مولانا ابو تراب عبد الرحمان گیلانی، مولانا علی حسن مدھو پوری اور مولوی ابو النصر گیلانی کا ذکر ملتا ہے۔ اوّل الذکر مولانا کے صاحبزادۂ گرامی تھے