کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 350
شخصیت ہیں ،[1] بالکل غلط ہے۔ تبلیغ و ارشاد: مولانا عبد اللہ ترکِ وطن کر کے گیلان میں قیام پذیر ہوئے اور اہلِ بہار کو اپنی ذات سے بہت فیض پہنچایا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رقمطراز ہیں : ’’مولانا عبد اللہ نے بہار کے اضلاع پٹنہ و مونگیر خصوصاً ضلع مونگیر میں جو کام انجام دیا وہ یادگار رہے گا۔ خدا جانے کتنے مسلمانوں کے گھر سے بت نکلوائے اور شراب و تاڑی سے لوگوں کو تائب کیا۔ آخر میں تو آپ کے دستِ حق پرست پر ضلع مونگیر کے ایک راجہ آف مرچا مسلمان بھی ہو گئے، جن کا خاندان جموی سب ڈویژن کے مسلمان رئیسوں میں بحمد اللہ اس وقت امتیاز رکھتا ہے۔‘‘[2] زہد و تقویٰ: مولانا اپنی زاہدانہ روش اور عمدہ اخلاق و اوصاف کی وجہ سے ہر دلعزیز تھے۔ لومۃ لائم سے بے پروا ہو کر حق کا اظہار فرماتے۔ مولانا ابو طاہر بہاری لکھتے ہیں : ’’آپ زہد و تقویٰ میں بہار میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ کو توکل غایت درجہ کا تھا، اتباعِ سنت میں کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔‘‘[3] تصانیف: مولانا کی توجہ تصنیف و تالیف کی طرف بھی منعطف رہی۔ مولانا کی کتابوں کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: 1 ’’العقیدۃ المحمدیۃ للفرقۃ الناجیۃ في الرد علیٰ الفرقۃ المرجئۃ و المعتزلۃ و الجہمیۃ‘‘: عربی میں مولانا نے سلف صالحین کے عقیدے کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ کتاب دو حصوں پر محیط ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا کے تلمیذِ رشید مولانا
[1] تذکرہ مسلم شعرائے بہار (۴/۲۴۳) [2] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت (۱/۳۴۷) [3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء