کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 35
پانچویں بزرگ منشی محمد جعفر تھانیسری تھے۔ ان تمام اسیرانِ بلا و مصائب میں بقول مولانا مسعود عالم ندوی:
’’مولانا یحییٰ علی ہر حیثیت سے خاص امتیاز کے مالک تھے۔‘‘[1]
انبالہ سیشن جج سر ہربرٹ ایڈورڈ نے انھیں سزائے موت دی اور بقول ولیم ولسن ہنٹر:
’’شاید ہی کسی عدالت نے ایسے پُر اثر الفاظ کہے ہوں گے جیسے کہ سر ہربرٹ ایڈورڈ نے اس کے لیے سزائے موت تجویز کرتے ہوئے کہے۔‘‘[2]
اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سر ہربرٹ ایڈورڈ نے کہا:
’’وہ بہت تعلیم یافتہ انسان ہے اور اپنی لا علمی کا عذر پیش نہیں کر سکتا۔ جو کچھ بھی اس نے کیا، سوچ سمجھ کر عمداً اور سخت باغیانہ طریقے پر کیا۔ وہ موروثی باغی ہے اور ایک متعصب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘[3]
2۔ مقدمہ سازشِ پٹنہ ۱۸۶۵ء:
۱۸۶۵ء میں حکومت نے پٹنہ میں مولانا احمد اللہ کے خلاف مقدمہ سازش قائم کیا۔ اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ مقدمے کے مجسٹریٹ راونشا پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک قیمتی یادداشت مرتب کی جس میں بنگال و بہار کے تمام کارکنانِ تحریک کی فہرست ضلع وار مرتب کی اور حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی، جس کی بدولت عرصہ تک انھیں تنگ کیا گیا، ان کی املاک ضبط کرلی گئیں اور اس طرح کئی خوش حال مسلمان گھرانے خانماں برباد اور تہی دست ہو گئے۔ راونشا ہی کی سفارش پر جو علمائے صادق پور مقدمات میں ماخوذ ہوئے ان کی تمام منقولہ و غیر منقولہ املاک ضبط کر لی گئیں اور ظلم کی انتہا یہ رہی کہ ان کے خاندانی قبرستان تک کو مسمار کر دیا گیا۔
3۔ مقدمہ سازشِ پٹنہ ۱۸۷۱ء:
یہ اس سلسلے کا آخری بڑا اور مشہور مقدمہ تھا۔ مولانا احمد اللہ کی گرفتاری کے بعد مولوی مبارک
[1] ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک (ص: ۱۱۸)
[2] ہمارے ہندوستانی مسلمان (ص: ۱۴۸)
[3] ہمارے ہندوستانی مسلمان (ص: ۱۴۸)