کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 349
گنگوہی، مولوی احمد علی سہارن پوری، مفتی صدر الدین خاں صدر الصدور دہلوی، مولانا سعادت علی سہارن پوری، نواب قطب الدین خاں صاحب دہلوی، مولانا عبد الغنی بن ابی سعید المجددی وغیرہم بڑے بڑے کملاء سے ملا اور بہت روز تک ان لوگوں کے درس کا مقابلہ اور موازنہ بہ نظر غائر میاں صاحب کے درس سے کرتا رہا، آخری فیصلہ میرے دل نے یہی کیا کہ میاں صاحب کے درس میں بالکل ہی نرالا پن ہے۔‘‘[1] گیلانی کی سکونت: فراغت کے بعد اپنے استاذِ گرامی مولانا محمد احسن گیلانی کی جائے سکونت ’’گیلان‘‘ (بہار) کو اپنی مستقل اقامت کے لیے منتخب فرمایا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں : ’’ہزارہ ضلع کے ایک بزرگ مولانا عبد اللہ پنجابی وطناً، گیلانی نزیلاً تو پڑھنے کے لیے آئے اور اسی گاؤں میں متوطن ہو کر اپنے وعظ و تلقین، ارشاد و ہدایت، درس و تدریس، افتاء و تصنیف کا سلسلہ نصف صدی کے قریب برابر جاری رکھا، وہیں کی خاک میں آسودہ ہوئے۔‘‘[2] مولانا حکیم احمد اللہ ندوی، مولانا محمد احسن گیلانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ غدر کے دنوں میں آپ لکھنؤ ہی میں تشریف فرما تھے۔ ہنگامہ غدر فرو ہونے کے بعد اپنے وطن گیلانی واپس آگئے اور اپنے ساتھ اپنے شاگرد مولوی عبد اللہ اور ملا رام پوری کو بھی لیتے آئے۔ مولوی عبد اللہ نے گیلانی میں شادی کی اور گیلانی ہی میں سکونت اختیار کی اور اپنے علم و فضل سے جوار میں کافی شہرت حاصل کی اور آپ کی اولاد نے بھی کافی امتیاز اور شہرت پائی۔ ‘‘[3] اس تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا عبد اللہ نے مولانا محمد احسن گیلانی سے پہلے پہل لکھنؤ میں کسبِ علم کا آغاز کیا، مگر ان معلومات کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی، جب کہ حکیم صاحب کا یہ خیال کہ مولانا عبد اللہ پنجابی گیلانی اور مولانا عبد اللہ خاں مونسؔ چواروی (م ۵ مئی ۱۹۵۰ء) ایک ہی
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۷۰) [2] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت (۱/۳۴۷) [3] تذکرہ مسلم شعرائے بہار (۴/۲۱۹)