کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 345
ہی میں وفات پا گئے۔ مولانا کے فرزند مولانا حکیم حافظ عبد القدیر تھے، جو ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ تلامذہ: مولانا نے کامل ۳۲ سال تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا سیف بنارسی کے مطابق بنگال میں مولانا کے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ’’مدرسہ سعیدیہ‘‘ کے بیشتر تلامذہ کو مولانا سے رشتۂ تلمذ حاصل تھا، تاہم محض حسنِ ظن کی بنیاد پر مناسب نہیں کہ ان کے ناموں کو مولانا کے تلامذہ کی فہرست میں شامل کر دوں ، جب تک کہ کوئی یقینی شہادت میسر نہ ہو، البتہ مولانا کے چند بنارسی تلامذہ کے اسمائے گرامی پر اطلاع ہو سکی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں : مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا ابو مسعود قمر بنارسی، مولانا قاری احمد سعید بنارسی، مولانا عبد الآخر بنارسی، مولانا عبد الرحمن بنارسی، مولانا قاری حافظ عبد اللہ بنارسی، مولانا حافظ محمد ابو القاسم بنارسی، مولانا سخاوت حسین بنارسی و غیرہم۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی کا تعزیتی شذرہ: مولانا موصوف کی وفات پر ان کے تلمیذِ رشید اور منہ بولے بھتیجے مولانا ابو القاسم سیف بنارسی نے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں اپنا تحریر کردہ تعزیتی شذرہ طبع کرایا تھا۔ اس شذرے میں مولانا کی وفات پر جہاں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے قلبی جذبات کو بیان کیا ہے، وہیں ان کی شخصیت کا مجموعی تاثر بھی پیش کیا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں من و عن درج کیا جائے کہ یہ شذرہ دونوں ہی بزرگوں کی یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا ابو القاسم ’’انتقال پُر ملال‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں : ’’ہر آنکہ زاد بنا چار بائدش نوشید زجام دہرئے کل من علیھا فان ’’افسوس صد افسوس کہ مولوی سید عبد الکبیر صاحب (جو مولانا محمد سعید صاحب مرحوم بنارسی کے جانشین تھے) ۸ رمضان المبارک یوم دو شنبہ کو اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون! اللھم اغفرلہ و ارحمہ۔ اللھم اجرنا