کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 344
رہے اور ۱۲۹۹ھ سے والد کے انتقال ۱۳۲۲ھ تک برابر آپ نے والد کا ساتھ دیا۔ والد بھی آپ کو اپنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتے رہے، حتی کہ آپ کو ہم لوگوں سے چچا کہلایا۔ آپ نے ہی ہم لوگوں کی پرورش کی اور تعلیم و تربیت دی۔ اور اب تک جو ۱۳۲۸ھ ہے، آپ اسی طرح ہم لوگوں کو اپنے استاد کی یادگار بے یارو مددگار سمجھتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ آپ کے خیال کو ہم لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہمیشہ رکھے اور آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین‘‘[1]
عادات و خصائل:
مولانا عمدہ اخلاق اور اعلیٰ خصائل کے حامل تھے، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا سے متعلق لکھتے ہیں :
’’آپ نہایت ہی خلیق، ملنسار، متواضع، مہمان نواز، متبع سنت، سیرتاً و صورتاً قاریِ قرآن، شب زندہ دار، ملازمِ جمعہ و جماعات تھے۔ عُجب و تکبر و خود پسندی نام کو نہ تھی۔ نہایت سیدھے سادھے، بے تکلف، با حیا و با وقار تھے۔ سارے کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے۔ امانتداری میں عدیم النظیر، طلبا پر بڑے مہربان، خلق اللہ پر نہایت شفیق تھے۔ صَرف و نحو و حدیث میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔‘‘[2]
حجِ بیت اللہ کی سعادت:
اللہ رب العزت نے مولانا موصوف کو حجِ بیت اللہ کی سعادت اور زیارتِ حرمین شریفین کی عزت سے بھی سرفراز فرمایا۔ ۱۳۱۲ھ میں حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اور بخیریت یہ سفر تکمیل پذیر ہوا۔
اولاد:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مولانا کو تین بیٹے اور چار بیٹیاں عطا کیں ۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں کم عمری
[1] تذکرۃ السعید( ص: ۲۴)
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۶ دسمبر ۱۹۱۹ء