کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 343
ابتدائی عمر ہی میں طلبِ حق کی شمع مولانا کے دل میں روشن ہو چکی تھی، بالآخر مولانا عبید اللہ پائلی کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔ اس کے بعد خانوادے سے کنارہ کشی اختیار کر کے مسلم سماج کا حصہ بنے۔ کسبِ علم کے لیے دیوبنداور دہلی کی خاک چھانی اور تکمیلِ علم کے بعد بالآخر تقدیر انھیں بنارس لے آئی، اسی سر زمین کو مولانا نے اپنا وطنِ ثانی بنا لیا۔ یہیں اپنی دینی و علمی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتداءً مولانا عبد الکبیر کو اپنا معاون بنایا لیکن مولانا عبد الکبیر صرف معاون یا شاگرد نہیں رہے، بھائی بن گئے۔ دینی رشتے سے تو بھائی تھے، لیکن عملاً بھائی سے بڑھ کر نبھایا۔ مولانا نے جس درجۂ اخلاص کے ساتھ اس تعلق خاص کو نبھایا، اس نے احساسِ وفا کی ایک ان مٹ مثال قائم کرتے ہوئے مواخاتِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی۔ مولانا سعید کی نگاہوں میں بھی مولانا کا مقام بہت بلند تھا۔ ۱۳۱۴ھ میں اپنی وفات سے ۸ سال قبل مولانا سعید نے وصیت نامہ لکھا تھا۔ اس کا جو حصہ مولانا عبد الکبیر سے متعلق ہے، اسے ملاحظہ فرمائیے:
’’میرا جنازہ مولوی عبد الکبیر یا عزیزی محمد (مولانا ابو القاسم سیف) پڑھائے۔ کوئی بدعتی بے نمازی میرے کفن دفن میں شریک نہ کیا جائے .... میں جمیع موحدینِ بنارس کو وصیت عمل بالسنۃ کی کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے عمل بالسنۃ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور مولوی عبد الکبیر کو میری جگہ مقرر رکھیں .... مولوی عبد الکبیر کو چاہیے کہ میرے حقوق ان پر بہت ہیں ، وہ میری اولاد کی تعلیم کے محافظ بنے رہیں ۔ اسی کتابوں کی تجارت سے اپنا اور ان کے گذر کے شکل نکالیں اور مسجد کو ہمیشہ آباد رکھیں ۔‘‘[1]
اس وصیت نامے سے ان بزرگوں کے مابین تعلقاتِ اخلاص و محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور پھر اس عہد کو مولانانے کس طرح نبھایا؟ اس کی گواہی مولانا سعید کے صاحبزادے مولانا ابو القاسم سیف بنارسی کے قلم سے ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں :
’’ہم لوگوں نے ابتدائی تعلیم وغیرہ سب آپ ہی سے حاصل کی۔ آپ کو والد نے اپنے مطبع کا منیجر بھی مقرر کر دیا، چنانچہ سب کام کو آپ نہایت حسن و خوبی سے انجام دیتے
[1] تذکرۃ السعید (ص: ۲۴۔۲۶)