کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 34
کا چرچا ہوا اور تقلید و تعصب کی بنا کمزور و مضمحل ہونے لگی، کیونکہ قرآن و حدیث کی محبت اور ان کی ترویج نے حق کو روشن کر دیا۔ {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ }‘‘[1]
مولانا ولایت علی[2] کے بعد ان کے افرادِ خاندان میں شاہ محمد حسین، مولانا عنایت علی، مولانا فرحت حسین، مولانا اولیاء علی، مولانا احمد اللہ، مولانا یحییٰ علی، مولانا ارادت حسین، مولانا فیاض علی وغیرہم نے خصوصی طور پر بہار کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، جس سے اہلِ حدیث فکر کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔
مقدماتِ سازش:
ہندوستان میں وہابی تحریک کے اساطین کے خلاف انگریزوں نے سازشی مقدمات قائم کیے، ان پر فردِ جرم عائد کی گئی۔ انھیں جیلوں میں محبوس کیا گیا اور کالے پانی کی سزائیں دی گئیں ۔ ۱۸۶۴ء سے ۱۸۷۱ء تک سازش کے پانچ بڑے مقدمات قائم کیے گئے۔
1۔ مقدمہ سازشِ انبالہ ۱۸۶۴ء:
پہلا مقدمہ سازشِ انبالہ کی نسبت سے معروف ہے، کیونکہ اس کی ابتدا منشی محمد جعفر تھانیسری سے ہوئی تھی، جن کا تعلق انبالہ سے تھا۔ اس ابتلا و آزمایش میں جو پانچ بزرگ آخر وقت تک ثابت قدم رہے، ان میں سے چار کا تعلق عظیم آباد سے تھا، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں : مولانا یحییٰ علی جعفری صادق پوری، مولانا عبد الرحیم زبیری صادق پوری، میاں عبد الغفار اور قاضی میاں جان۔
[1] الدر المنثور في تراجم أھل الصادقفور (ص: ۱۵۵)
[2] مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں : ’’پٹنہ کے مولانا ولایت علی معرکہ بالا کوٹ میں موجود نہ تھے۔ موصوف مولانا اسماعیل شہید کی اس جماعت کے خاص رکن تھے جو مولانا شہید نے حجۃ اللہ پڑھنے کے بعد اس پر عمل کرنے والی ایک جماعت بنائی تھی۔ یہ لوگ رفع یدین کرتے اور آمین بالجہر کیا کرتے۔‘‘ (شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک، ص: ۱۰۲)
مزید لکھتے ہیں : ’’مولانا ولایت علی کی تحریک کے متعلق ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ مولانا اسماعیل شہید کی اس خاص جماعت کو، جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے، زندہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اسی لیے مولانا نذیر حسین اور نواب صدیق حسن جیسے عالم بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں ۔‘‘ (حوالۂ مذکور، ص ۱۰۴)